جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی صدارتی ریفرنس نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 22 جون 2020ء کو وزیر قانون فروغ نسیم نے میری اہلیہ سے متعلق عدالت میں ایک بات کہی، کہ ہندومذہب میں شوہر کے مر جانے کے بعد اہلیہ ستی ہو جاتی ہے، اور خاتون
کی شناخت شوہر سے ہوتی ہے، وزیر قانون نے تمام خواتین کی توہین کی ہے۔فروغ نسیم نے کہا کہ علیمہ خان نے سلائی مشین سے لاکھوں پاؤنڈز بنائے، عدالت میں جھوٹ بولے گئے وہ سامنے لانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دو سال سے میری گردن پر تلوار لٹک رہی ہے اور حکومت کہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے۔جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ جو الزامات لگا رہے ہیں
ہمیں ان کو دیکھنا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ الزام نہیں بلکہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، میری درخواست ہے کہ مجھے اپنے دلائل مکمل کرنے دیں، میں اپنے طریقے سے دلائل دوں گا، سوال پوچھنے ہیں تو سماعت 9:30 بجے رکھا کریں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں تنبیہہ کی کہ اپنی آواز کو نیچا رکھیں، یہ عدالت ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دو سال سے میری گردن پر
تلوار لٹک رہی ہے، جذباتی ہونے پر عدالت سے معذرت خواہ ہوں۔ دوران سماعت سپریم کورٹ کے حکم پر سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل نے ایف بی آر رپورٹ عدالت میں جمع کروادی۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے کہا کہ رپورٹ کی کاپی کروا کر آپ کو بھی دیدیں گے۔سرینا عیسی نے کہا کہ جائیدادیں خریدی گئی تو بچے بالغ اور برسر روزگار تھے، شہزاد اکبر
عمران خان کی متوازی حکومت چلا رہے ہیں، سابق چیرمین ایف بی آر جہانزیب خان نے جسٹس فائز عیسی کے خلاف تحقیقات کی منظوری نہیں دی جس پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا، جہانزیب خان نے شہزاد اکبر کی غیر قانونی فرمائش پوری نہیں کی تھی۔لندن جائیدادوں کے ریکارڈ میں جسٹس فائز عیسیٰ کا نام نہیں، لندن جائیدادوں کے لیے فنڈز کی منتقلی میں بھی میرے شوہر کا کردار نہیں ہے۔کیس
میں فریق نہیں تھے پھر بھی میرے اور بچوں کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ سرینا عیسیٰ نے کہا کہ شہزاد اکبر پی ٹی آئی کے رکن اور غیر منتخب شخص ہیں، عدالت میرے متعلق فیصلے میں لکھی گئی آبزرویشن حذف کرے، شہزاد اکبر عمران خان کی متوازی حکومت چلا رہے ہیں، میں اور میرے بچے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے زیر کفالت نہیں، وزیر اعظم عمران خان پر بھی انکم ٹیکس قانون کا
اطلاق ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بھی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے، وہ بطور وزیر اعظم عہدے پر کیسے رہ سکتے ہیں جبکہ الزام لگایا کہ عمران خان نے ٹیکس گوشواروں میں سچ نہیں بولا۔ جس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے سرینا عیسیٰ سے کہا کہ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ ریفرنس عدالت کالعدم قرار دے چکی ہے، آپ کے تمام دلائل ریفرنس کے خلاف ہیں، آپ کا معاملہ صرف
کیس ایف بی آر کو بھجوانے تک ہے، آپ جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے بہت بہتر دلائل دے رہی ہیں۔آپ کا نام سپریم جوڈیشنل کونسل میں جاری انکوائری میں سامنے آیا، اس میں شک نہیں کہ آپ عدالتی فیصلے سے متاثر ہوئی ہیں جبکہ مقدمہ غیر قانونیت کا نہیں بلکہ ذرائع آمدن کا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم جوڈیشل کونسل کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ سرینا عیسیٰ نے کہا کہ وہ اور ان کے بچے
لندن جائیدادوں کے مشترکہ مالک ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اصل بات فنڈز کے ذرائع ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سوال کیا کہ کیا میں اپنی اہلیہ کو وکیل کر لوں؟ جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نے بہت دیر کر دی یہ پہلے سوچنا تھا۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔