پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء اور سابق وفاقی وزیر انجینئرخرم دستگیر نے کہا ہے کہ حکومت کو ٹی ایل پی سے معاہدے کیلئے پہلے پابندی ختم کرنا ہوگی، حکومت نے ٹی ایل پی کو دہشتگرد جماعت قرار دے کر قانونی حیثیت ختم کردی ہے، سب کچھ عجلت میں کیا جارہا، پہلے کالعدم قرار دیا پھر کالعدم جماعت سے مذاکرات کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک لبیک اور لال مسجد کیس میں پیچیدگی یہ ہے کہ تحریک لبیک سیاسی جماعت ہے اور وہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے، ان کے تین ارکان اسمبلی ہیں۔پنجاب میں 22لاکھ ووٹ لیے ہیں، جب آپ اس طرح کی پابندی لگاتے ہو پھر مذاکرات بھی کرتے ہوئے تو یہ حکومت کی عجلت ہے، آپ مذاکرات کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن دوسرے
فریق کی حکومت نے خود قانونی حیثیت ختم کردی ہے، میں قانونی ماہرین کے سامنے سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ جب حکومت نے ایک جماعت کو دہشتگرد جماعت قرار دے دیا ہے، تو اس سے کیا گیا معاہدہ قابل قبول ہوسکتا ہے؟ حکومت اگر قانونی طور پر مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے تو پھر پہلے ٹی ایل پی کے اوپر عائد پابندی ختم کی جائے۔ واضح رہے حکومت کی جانب سے سربراہ کالعدم ٹی ایل پی
کے ساتھ جیل میں مذاکرات کیے جارہے ہیں۔ مذاکرات کرنے والے علماء وفد نے سعد رضوی سے احتجاج ختم کرنے کی درخواست کی، انتشار اور جلاؤ گھیراؤ سے ملک کا نقصان ہوا، امن وامان کیلئے لاہور کا دھرنا بھی ختم کیا جائے، کارکنان کیلئے ویڈیو پیغام جاری کریں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء ندیم افضل چن نے وزیراعظم سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مطالبہ کردیا،
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ جناب وزیراعظم آپ آل پارٹیز کانفرنس بلائیں۔ کیونکہ اس وقت ملک میں مذہبی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام اسٹیک ہولڈرز کا مل کر بیٹھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسائل ایک دو حکومتوں میں پیدا نہیں ہوئے۔ اس پر سب بڑے بیٹھ کر آنے والی نسلوں کیلئے کوئی حل نکالیں۔