نامور صحافی خالد جاوید خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لیجنڈ کھلاڑی ہونے کے ناطے سے عمران خان نے اپنی سیاست میں کرکٹ کی کئی اصطلاحات متعارف کرائیں مثلاََ کپتان، بائونسر، ایل بی ڈبلیو اور ایمپائر کی انگلی وغیرہ۔ جب وہ کہتے تھے کہ بس اب ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے والی ہے تو ان کا واضح اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہوتا تھا۔ اس سے پہلے ایمپائر کی انگلی کے
حوالے سے مشہور کارٹونسٹ جاوید اقبال نے 1977 میں ایک کارٹون بنایا تھا جب جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ کر اکتوبر 1977 میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا جو کبھی پورا نہ ہو سکا ان دنوں بھٹو صاحب جیل میں تھے اور ان کے سیاسی حریف آزادانہ طور پر اپنی انتخابی مہم چلارہے تھے۔ اس کارٹون میں زنجیروں میں جکڑا ہوا ذوالفقار علی بھٹو بیٹنگ کر رہا ہوتا ہے، قومی اتحاد
کے لیڈر بائولنگ کروا رہے ہوتے ہیں اور جنرل ضیاء ایمپائر کی حیثیت سے انگلی کھڑی کئے بھٹو کو آئوٹ قرار دے رہا ہوتا ہے۔ تقریباََ وہی صورتِ حال گزشتہ انتخابات کے دوران دیکھنے میں آئی۔ نجانے وہ کون سی مصلحتیں اور مجبوریاں تھیں کہ ایمپائرز کو نہ صرف اس عمران خان کے حق میں اپنی انگلی کھڑی کرنی پڑی جس نے ان کے خلاف سخت اور کڑی زبان استعمال کی تھی بلکہ گزشتہ
تین سالوں میں اسے بار بار آئوٹ ہونے سے بچانا بھی پڑا۔عمران الیون کی سیاسی ٹیم تحریک ِ انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے کوہِ ہمالیہ سے بھی بلند و بالا دعوے کیے۔ کہا گیا پہلے سو دنوں میں ہی بدعنوانی کا خاتمہ کر دیں گے۔ مہنگائی کا نام و نشان تک مٹا دیں گے۔ امن و امان کو مثالی بنا دیں گے۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دیں گے۔ صحت اور تعلیم مفت کر دیں گے، گرین پاسپورٹ
کو دنیا میں اعلیٰ مقام دلائیں گے۔ لوگ باہر سے نوکریاں کرنے پاکستان آئیں گے۔ مگر ہوا کیا؟ زلفی بخاری ، شہباز گلِ اور حفیظ شیخ جیسے لوگ تو بیرونِ ملک سے نوکریاں کرنے آگئے مگر پاکستان میں رہنے والے ایک کروڑ نوکریاں حاصل کرنے کی بجائے لاکھوں کی تعداد میں بیروزگار ہوگئے۔ ہر ادارہ تباہ و برباد ہوگیا۔ آزادیٔ اظہار پر بدترین پابندیاں لگا دی گئیں۔ 5.8 جی ڈی پی کی شرح پر ترقی
کرتا ہوا پاکستان منفی اعشاریہ چار پر چلا گیا۔ بدعنوانی میں 7 درجے اضافہ اور گرین پاسپورٹ کی قدر میں چار درجے کمی ہو گئی۔ معیشت یوں تباہ حال ہوئی کہ 71 سالوں میں جتنی مہنگائی ہوئی صرف تین سالوں میں اس میں چار گنا اضافہ ہوگیا۔ اپوزیشن کے خلاف نفرت انتقام اور مغلطات کی سیاست نے ملک کو شدید سیاسی عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے پاکستان خطے کا سب سے زیادہ شورش زدہ
اور پسماندہ ترین ملک بن چکا ہے۔ اچھی ٹیم بنانے کے ماہر ہونے کے دعویدار عمران خان کی سیاسی ٹیم اور کپتانی ابھی تک ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ لگتا ہے ملک پانچ سالہ ٹیسٹ میچ کی طرح کھلاڑی بدل بدل کر چلایا جا رہا ہے۔ کرکٹ کی زبان میں عمران خان بوکھلاہٹ میں کئی مرتبہ ’’ہٹ وکٹ‘‘ ہو چکے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے انہیں ہر بال پر ’’کلین بولڈ‘‘ کردیا ہے۔ بیڈ گورننس کے ہاتھوں
وہ بار بار ’’کیچ آئوٹ ‘‘ ہورہے ہیں۔ اور اپنی ہر ناکامی کو پچھلی حکومتوں پر ڈالنے کے دعوے انہیں متواتر ’’ ایل بی ڈبلیو‘‘کر رہے ہیں۔ تماشائی کھلاڑی نما سیاسی اناڑی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔ مگر حیرت انگیز طور پر ابھی تک ایمپائر کی انگلی حرکت میں نہیں آئی ۔
اگر ایمپائر کی انگلی نہ اٹھی تو کیا بعید کہ کہیں ایمپائر پر ہی انگلیاں اٹھنی شروع ہو جائیں۔ اس لیے ایمپائر کو بہر صورت اپنی ’’غیر جانبداری ‘‘ ثابت کرنی چاہیے۔ کیونکہ ایمپائر کے اوپر بھی ایک ایمپائر ہے اور وہ ہے تاریخ کی عدالت۔