نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یاد نہیں پڑتا میں کسی ملک گیا ہوں اور وہاں کسی پاکستانی کو مقامی پاکستانی ایمبیسی کے سٹاف سے خوش پایا ہو۔ ہاں 2014ء میں نیویارک میں تھا تو وہاں میاں مشتاق احمد جاوید اور دیگر سے ایک قونصلر کی بہت تعریف سنی کہ دن رات وہ پاکستانیوں کی خدمت پر تیار تھا۔ مجھے دکھ ہورہا ہے کہ مجھے ان کا نام یاد نہیں رہا۔
یہ بھی ہماری عادت ہے کہ اچھے کام کرنے والوں کے نام ہمیں یاد نہیں رہتے جبکہ غلط کاموں والوں کے نام برسوں نہیں بھولتے۔پاکستانی فارن آفس کے لوگوں کو رویہ بدلنا چاہئے۔ یہ لوگ جتنی مشکلات سے دوسروں ملکوں میں زندہ رہ کر پاکستان میں اپنے خاندانوں کیلئے کمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اس کے بعد ان کے ساتھ ایسا سلوک ہرگز مناسب نہیں۔ دوسری طرف داد دیں وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی کو جن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ میں دو تین سال پہلے شاہ محمود قریشی کے سالانہ گوشوارے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ اثاثے کروڑوں روپے کے تھے لیکن موصوف نے اس سال ٹیکس صرف آٹھ لاکھ روپے دیا تھا۔ اندازہ کریں جس کے اکاؤنٹس میں بیس پچیس کروڑ روپے ہوں اور وہ سال میں صرف آٹھ لاکھ روپے ٹیکس دے اور اس ملک کی خارجہ پالیسی کے علاوہ پیری مریدی
بھی چلاتا ہو۔ شاہ محمود قریشی کو وزارت خارجہ چلانے میں اس لیے دلچسپی نہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدوار تھے اور آج بھی ہیں۔ وہ وزارت خارجہ کو وقتی نوکری سمجھتے ہیں جس پر زیادہ توجہ یا اہمیت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں یاد آیا جب وہ پی پی دور میں وزیر خارجہ بنے تھے تو اپنے ایک یار بیلی ناصر صاحب جن کی عینکوں کی دکان تھی کو گشتی سفیر لگایا جنہوں نے ڈیڑھ دو
کروڑ روپے ٹی اے ڈی لیا‘ پچاس ملکوں کا ہمارے خرچے پر دورہ کیا اور ڈیڑھ سو دن انہوں نے امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ میں گزارے۔ ایک عینکیں بیچنے والے کے گشتی سفیر لگنے کی ایک ہی اہلیت تھی کہ وہ وزیرخارجہ کا روم میٹ اور دوست تھا۔ اب جس کے اکاؤنٹ میں بیس پچیس کروڑ نقد پڑے ہوں‘
پورچ میں چار لگژری گاڑیاں پارک ہوں‘ اسے بیرون ملک پاکستانیوں سے کتنی ہمدردی ہو سکتی ہے اور وہ ان کے وہ دکھ اور درد دور کرنے کی کتنی کوشش کر سکتا ہے‘ جن کا رونا وزیر اعظم رو رہے تھے؟