لاہور (ویب ڈیسک) میر ظفر اللہ جمالی سے مجھے عقیدت اس وقت ہوئی جب انہوں نے ختم نبوتؐ قانون میں ترمیم کی سازش کے خلاف قومی اسمبلی میں اشکبار آنکھوں اور دل سوز لہجے میں تقریر کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ اب اس ایوان کا حصہ نہیں رہنا چاہتے، کیونکہ یہاںجو سازش ہوئی ہے، وہ میرے جذبہئ ایمانی کی توہین ہے، نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں 37 بار روضہ رسولؐ پر حاضر ہو ا ہوں اس ایوان کا حصہ رہا تو آقائے دو جہاں کے در پر کیا منہ لے کر جاؤں گا۔
اس کے بعد وہ 2015ء میں جب قومی اسمبلی سے رخصت ہوئے تو پھر اس کی طرف لوٹ کر نہیں دیکھا یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی
پہلی مثال ہے، جس میں ایک عاشقِ رسولؐ نے ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے اقتدار کو ٹھوکر ماری ہو آج وہ اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور سینے پر عشق محمدؐ کا تمغہ سجائے پیش ہو گئے ہیں، دنیا و آخرت میں اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے۔76 سالہ میر ظفر اللہ جمالی پاکستانی سیاست میں ایک منفرد کردار کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ کئی دہائیوں تک اقتدار کے ایوانوں کا حصہ رہنے کے باوجود ان کے دامن پر ندامت کا کوئی داغ نہیں۔ یہاں تو چند ماہ اقتدار میں رہنے والے چوری سے اپنا دامن داغدار کر لیتے ہیں لیکن میر ظفر اللہ جمالی دوبار وزیر اعلیٰ بلوچستان، کئی بار وفاقی وزیر اور ایک بار وزیر اعظم پاکستان رہے مگر آج تک ایسی کوئی کہانی سامنے نہیں آئی کہ جس میں ان کے بیرون ملک اثاثوں، بلوچستان میں لوٹ مار یا اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے الزامات لگے ہوں
میں نے پچھلی چار دہائیوں میں دو ایسے وزرائے اعظم دیکھے ہیں، جنہوں نے اس عہدے کی توقیر میں اضافہ کیا ایک محمد خان جونیجو اور دوسرے میر ظفر اللہ خان جمالی، دونوں اصولوں پر ڈٹے رہے اور اس کی پاداش میں وزارتِ عظمیٰ سے بھی محروم کئے گئے۔ دونوں نے سیاست میں شائستگی اور رواداری کو پروان چڑھایا آج کی طرزِ سیاست انہیں چھو کر بھی نہیں گزری، افسوس ہم نے ایسے لوگوں کی کبھی قدر نہیں کی ہمیں تو چالاک، عیار اور دغا باز لوگ پسند ہیں جو چوری لوٹ مار کریں، قانون توڑیں، اقربا پروری کریں اور قومی وسائل کی دھجیاں اڑائیں، محمد خان جونیجو اور میر ظفر اللہ خان جمالی ایسے سیاسی کلچر میں مکمل طور پر مس فٹ نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا جاتا رہا۔