شہنشاہ ایران کی جلا وطنی کے بعد عوام کی جدوجہد مزید زور پکڑ گئی‘ کاروبار زندگی معطل ہوا اور حکومتی رٹ مفقود۔شاہ پور بختیار نے اعلان کیا کہ اگر آیت اللہ خمینی نے ایران میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ان کے طیارے کو فضا میں میزائل سے نشانہ بنا دیا جائے گا۔ نامور کالم نگار ارشاد احمد عارف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔شاہ پور بختیار نے یہ بھی اعلان کیا کہ کوئی فضائی کمپنی
آیت اللہ خمینی کو اپنے طیارے میں سوار کرنے کا رسک نہ لے۔آیت اللہ خمینی تہران کی کسی عدالت سے آٹھ ہفتے کی ضمانت اور پچاس روپے کے بیان حلفی پر بغرض علاج بغداد گیا تھا نہ شاہ ایران اور شاہ پور بختیار کی حکمرانی کے دوران آیت اللہ خمینی کا کوئی محمد زبیر ٹائپ نمائندہ حکومت اور فوجی قیادت سے درپردہ حصول مراعات کے لئے مذاکرات میں مصروف رہا۔کسی ایرانی عدالت نے ان
کی پیشی کے لئے اخبارات میں اشتہارات چھپوانے کی ہدایت کی نہ انہیں اشتہاری اور مفرور قرار دینے کی قانونی کارروائی شروع ہوئی تھی۔ انہیں زبردستی ملک بدر کیا گیا اور وہ اپنی آزادانہ مرضی سے ایک جابر‘سفاک اور غیر قانونی حکومت کی وارننگز کے باوجود عوامی جدوجہد میں شمولیت کے لئے وطن واپس آنے پر مُصر تھے‘ شاہ پور بختیار کی وارننگ کے جواب میں آیت اللہ خمینی نے
پیشگوئی کا بیان دیا اور کہا کہ جب میرا طیارہ ایرانی حدود میں داخل ہو گا‘ شاہ پور بختیار‘ شاہ کی طرح ملک سے فرار ہو چکا ہو گا۔ واقعی جب خمینی کا چارٹرڈ طیارہ ایرانی حدود میں داخل ہوا ‘ شاہ پور بختیار فوج اور فورسز کو تہران کے ایئر پورٹ کے محاصرے کا حکم دے کر ملک سے فرار ہو رہا تھا‘ تہران ایئر پورٹ پر تعینات فوجی دستے اور ٹینک و توپ خانہ عوامی سیلاب کے سامنے
سرنگوں ہوئے اور آیت اللہ اس دھج سے ایرانی سرزمین پر اُترا کہ شہر سے کم و بیش پچاس کلو میٹر دور ایئرپورٹ سے لے کردس مرلے کے آبائی گھر تک انسانوں کے سر تھے۔ خمینی کی گاڑی انہی سروں پر چل کر گھر تک پہنچی۔ کوئی استقبالی قافلہ ایئرپورٹ کا راستہ بھولا‘ نہ ایئر پورٹ پر کوئی سرکاری اہلکار وارنٹ گرفتاری لئے کھڑا تھااور نہ آیت اللہ کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش
آئی کہ میرے خاندان کا کوئی فرد‘ پارٹی کا کوئی رہنما اور وفادار کارکن کیوں نہیں آیا‘ آیت اللہ خمینی پر شاہ ایران نے بغاوت کا مقدمہ قائم کیا تھا‘ تختہ دار پر چڑھانے کی سزا بھی دلوائی مگر زندگی بھر کبھی ایک پائی کی مالی بدعنوانی کا الزام لگایا نہ خاندان کے کسی فرد پر بعدازاں خمینی کی قائدانہ حیثیت سے فائدہ اٹھا کر مالی منفعت کے حصول کا شک گزرا۔تاحیات قائد انقلاب کی حیثیت سے آیت اللہ
دس مرلے کے گھر میں مقیم رہے۔ جہاں اُن سے دنیا بھر کے حکمران ملتے اور نصیحتیں سنتے۔ کسی امریکی اور یورپی اخبار میں ان کے خاندانی اثاثوں کے حوالے سے کوئی سکینڈل سامنے آیا نہ بیٹے احمد خمینی پر مالی بدعنوانی کا الزام لگا‘ ایک موقع پر بنی صدر نے احمد خمینی کو ترپ کے پتے پر استعمال کرنا چاہا۔ وزیر اعظم کے اُمیدوار کے طور پر نامزد کر دیا ‘ آیت اللہ نے فوراً یہ نام واپس
لینے کی ہدایت کی اور کہا کہ میرا بیٹا ہونے کی وجہ سے احمد وزارت عظمیٰ کے منصب کا اہل نہیں۔ میاں نواز شریف کو اس ملک کے ’’باشعور عوام‘‘ نے تین بار وزیر اعظم کے منصب پر فائز کیا‘ ہر بار اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر وہ ایوان اقتدار سے نکلے اسیری اور رہائی کے درمیانی عرصے میں انہوں نے بیرونی دوستوں کا اثرورسوخ استعمال کیا‘2007ء اور 2018ء میں ان کی وطن واپسی پر ایئر
پورٹ ان کے متوالوں کی دید کو ترستا رہا‘2018ء میں محمد زبیر کو بھی وہاں پہنچنے کی توفیق نہ ہوئی جبکہ لاہور کا جلوس مال روڈ کے اردگرد بھٹکتا رہا‘ ایئر پورٹ کا راستہ بھول گیا۔ آیت اللہ خمینی نے رضا شاہ سے دس سالہ جلا وطنی کا معاہدہ کیا نہ عراقی حکومت کی دعوت پر رضا کارانہ جلا وطنی اور بغداد کے کسی محل میں قیام کو ترجیح دی۔اُن کے حواریوں میں بھی کوئی روایتی لوٹا شامل
تھا نہ مصلحت پسند و کم کوش دوکشتیوں کا سوارلیڈر۔ اپنے لیڈر کے بارے میں حسن ظن رکھناہر سیاسی کارکن کا حق ہے اور چاپلوسی ہماری سیاست کی دیرینہ روایت مگر میاں نواز شریف کو آیت اللہ خمینی قرار دینا‘ خود میاں صاحب سے ناانصافی ہے ‘انہیں ایسا کردار سونپنے کی سازش جس کا تصوّر کر کے ہی میاں صاحب کے پسینے چھوٹیں‘ پلیٹ لٹس گرنے لگیں۔ زبیر صاحب اور ان کے لیڈر نے
خمینی کا نام ضرور سنا ہو گا‘ کردار سے واقف نہیں‘دلیر‘ دبنگ‘ درویش‘ مرد مجاہد خمینی کا نواز شریف سے موازنہ ؟چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔(ش س م)