لاہور (ویب ڈیسک) ربا! میرے حال دا محرم توں اندر توں ہیں، باہر تو ہیں، رُوم رُوم وِچ توں توں ہی تانا، توں ہی بانا، سبھ کجھ میرا توں کہے حسین فقیر نمانا، میں ناہیں سبھ توں! محبوب الحق…حضرت شیخ مادھو رحمتہ اللہ علیہ قادری لاہوری ولادت 983ھ…وصال 1054ھ قطب الحق، امام الاوتار…نامور کالم نگار مستنصر حسین تارڑ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔حضرت شاہ حسین مقصود العین المعروف لال حسین قدس سرہُ العزیز…ولادت 940ھ …وصال 30جمادی الثانی 1008ھ ‘ کتاب ’’حقیقت الفقرا‘‘ کے مطابق حضرت کا نام ڈھڈا حسین تھا اور ڈھڈا پنجاب کے راجپوتوں میں ایک ذات ہے۔
بزرگوں میں جو شخص کہ اول شرف با اسلام ہوا اس کا نام کلس رائے تھا۔ والد کا نام عثمان تھا اور انہوں نے غربت کی وجہ سے پیشہ بافندگی اختیار کیا۔ شاہ حسین نے ہمیشہ اپنے جو لاہے ہونے پر فخر کیا اور راجپوت ہونے کو قابل عزت نہ گردانا… انی حسین جُلاہا نہ اوہ مومن، نہ اوہ کافر جو آہا سو آہا… یعنی میں تو حسین جولاہا ہوں، اور جو ہوں بس ہوں۔ شاہ حسین اپنی پوری شاعری میں اسی پیشے کی رمزوں، ترکیبوں اور استعاروں کو بروئے کار لا کر معرفت کی کھڈی پر چڑھایا اور ایسے ایسے کھیس، رانگلے رنگ رنگیلڑے بنے جن کی ہرگرہ میں سے عشق الٰہی کے بوٹے پھوٹتے ہیں۔ اتن میں کیوں آئی ساں، میری تند نہ پئی آکائے ہورناں کتیاں پنج ست پونیاں میں کی آکھاں جائے سرت کا تانا، نرت کا بانا ہتھ اٹیرن رہ گئی چھلی کوئی جو تند رولی پے گئی، صاحب مول نہ بھانا چرخا میرا رنگڑا، رنگ لال اپنا سوت تیں آپ ونجایا، دوش جلاہے کیوں؟ گھم چرکھڑیا، تیری کتن والی جیوے ’’حقیقت الفقرا‘‘میں درج شدہ بے شمار کرامتیں جو شاہ حسین سے منسوب کی گئی ہیں وہ کم از کم مجھے بعید از حقیقت لگتی ہیں۔ حقیقت کی نابینائی کی پروردہ کہانیاں ہیں۔
اگرچہ اس کے مصنف اسے ذاتی مشاہدہ قرار دیتے ہیں۔ البتہ ایک روایت درج کرتا ہوں۔ جس میں بے شک حقیقت ہرگز نہ ہو پر یہ حکایت لذیذ ہے کہ ایک عیاش طبع شخص نے جب دیکھا کہ شاہ حسین رندی اور مستی میں مشغول شہر کی گلیوں میں رقص کرتے پھرتے ہیں اور مردوں کے علاوہ حسین عورتیں بھی ان کو ولی مانتی ہیں تو وہ شاہ کی خدمت حاضر ہو کرعرض گزار ہوا کہ اے لال حسین میں تیرا مرید ہو کر تیری پیروی کرنا چاہتا ہوں۔ جو تو کرتا ہے میں بھی وہی کروں گا تو شاہ نے کہا کہ چلا آ…ایک گلی میں سے شہر کی سب سے دل ربا کشمیری عورت نکلی تو شاہ نے ہم آغوش اختیار کر کے اسے چوما۔ وہ مرید بھی بخوشی آگے ہوا اور عورت سے بغلگیر ہو کر اسے چوما۔ ذرا آگے گئے تو وہاں روٹیوں کا تندور دیکھتا تھا۔ شاہ حسین نے اس میں ہاتھ ڈال کر ایک دہکتا ہوا کوئلہ نکالا اور اسے اپنی زبان پر رکھ لیا۔ مرید خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا تو شاہ نے کہا تو نے کہا تھا کہ جو میں کروں گا تو بھی وہی کرے گا، تو اب یہ بھی کر۔ کہا جاتا ہے کہ وہ شخص اس کرامت سے اتنا متاثر ہوا کہ توبہ تائب ہو کر دل و جان سے شاہ کا مرید ہو گیا۔ لہو و لعب اختیار کرنے سے پیشر معمول تھا کہ تمام رات دریائے راوی میں کھڑے ہو کر تابہ سحر ختم قرآن کرتے اور نماز فجر و اشراق پڑھ کر علی ہجویری کی خانقاہ پر حاضر ہو جاتے لوگ کہتے یہ جولاہا نہیں جوئے الٰہی ہے۔