Home / منتخب کالم / نواز شریف تو ضیاء کی پیداوار مگر آپ اس حقیقت سے لاعلم ہونگے کہ جناب کپتان بھی جنرل ضیاء ہی کی پیداوار ہیں ، مگر کیسے ؟ سینئر پاکستانی صحافی نے حیران کن اور یادگار واقعہ بیان کر دیا

نواز شریف تو ضیاء کی پیداوار مگر آپ اس حقیقت سے لاعلم ہونگے کہ جناب کپتان بھی جنرل ضیاء ہی کی پیداوار ہیں ، مگر کیسے ؟ سینئر پاکستانی صحافی نے حیران کن اور یادگار واقعہ بیان کر دیا

Sharing is caring!

لاہور (ویب ڈیسک) ہماری سیاست میں منطق کو دلیل کی بجائے ذاتی پسند اور ناپسند کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی ایک شخصیت ناقابل قبول اور جنرل پرویز مشرف کا سارا مارشل لاء کسی حد تک قبول ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے وزیراعظم محمد خان جونیجواور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے وزرائے اعظم میرظفر اللہ جمالی،

چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کو کیا نواز شریف جتنا ہی برا بھلا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سب بھی مارشل لائوں کی زیرسرپرستی بننے والے وزرائے اعظم تھے؟ نامور کالم نگار سید سردار احمد پیرزادہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جنرل ایوب کے دور کے قائم مقام صدر فضل القادر چوہدری اور جنرل یحییٰ کے دور کے وزیراعظم ونائب صدر نورالامین بھی مارشل لائی دور میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والی اعلیٰ شخصیات تھیں۔ جنرل یحییٰ کے مارشل لاء دور کے وزیراعظم نورالامین کی قبر تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں ہی ہے۔ اس کے علاوہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے زیرسرپرست وزراء او رمشیروں میں کئی شخصیات سیاست سے ہٹ کر انٹرنیشنل سطح پر اپنی دانش ور انہ پہچان بھی رکھتی تھیں۔

ان مارشل لاء ادوار میں سامنے آنے والی اعلیٰ شخصیات میں سے کئی ایسی ہیں جنہوں نے مارشل لائی حکومت سے الگ ہونے کے بعد سول سپرمیسی کے لیے قدم بڑھائے اور ہم ان کی مارشل لائی دور کی پیدائش کو معاف کرکے سول سپرمیسی کے حق میں بڑھتے ان کے قدموں کے ساتھ اپنا قدم ملاتے ہیں۔کیا چاروں مارشل لائوں کے دوران حکومت کا حصہ بننے والی ایسی تمام شخصیات کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے یا ذلت کا حقدار نہیں ٹھہرانا چاہیے جیسے کہ نواز شریف؟ یاپھر اِن شخصیات کی تذلیل اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہ حکومت وقت کا ساتھ دے رہی ہوتی ہیں یاپھر غیرسرگرم ہونے کے باعث حکومت وقت کے لیے خطرہ نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ تنقید اور ذلت کا تعلق مارشل لاء کی پروڈکٹ سے نہیں بلکہ حکومت وقت کا ساتھ دینے یا نہ دینے سے ہے۔ سب کو 1987ء کا کرکٹ ورلڈکپ یاد ہوگا جب عمران خان کی قیادت میں ہماری ٹیم کو شکست ہوئی۔ عمران خان نے مایوس ہوکر کرکٹ چھوڑ دی۔

جنرل ضیاء الحق نے عمران خان میں اچھے کرکٹر کی چمک دیکھ لی تھی۔ عمران خان جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر راولپنڈی کے فائیوسٹار ہوٹل میں مہمان ہوئے اور اس مہمان نوازی کے بعد انہوں نے دوبارہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو جوائن کرلیا۔ اگر جنرل ضیاء ہارے ہوئے مایوس عمران خان کو حوصلہ دے کر دوبارہ کرکٹ میں نہ لاتے تو عمران خان 92ء کے ورلڈکپ کی ٹیم کے کپتان نہ ہوتے۔ اگر عمران خان 92ء کا ورلڈکپ نہ جیتتے تو شاید شوکت خانم ہسپتال نہ بنا پاتے جس کی مشہوری انہوں نے ورلڈکپ کی وننگ سپیچ میں بھی کی تھی۔ اگر عمران خان شوکت خانم ہسپتال اور ورلڈکپ کا اعزاز لے کر سیاست میں نہ آتے تو انٹرنیشنل شہرت حاصل نہ کرپاتے۔ کیا جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف کی طرح عمران خان میں بھی کوئی چمکتا

About admin

Check Also

25+ Times People Thought Of Stupid Solutions That Actually Work

The only limit to accomplishing anything in life is your imagination. However, creativity and inventions …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *