Home / سیاست / پاکستان تو میں ضرور آؤنگا ۔۔۔۔!!! جن دنوں میں دنیا نیلسن منڈیلا سے ملاقات کے لیے ترستی تھی ، ان دنوں نیلسن منڈیلا پاکستان آنے کے لیے کیوں بے قرار تھے ؟ ہارون الرشید کی خوبصورت تحریر

پاکستان تو میں ضرور آؤنگا ۔۔۔۔!!! جن دنوں میں دنیا نیلسن منڈیلا سے ملاقات کے لیے ترستی تھی ، ان دنوں نیلسن منڈیلا پاکستان آنے کے لیے کیوں بے قرار تھے ؟ ہارون الرشید کی خوبصورت تحریر

Sharing is caring!

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جنوبی افریقہ میں پاکستانی سفیر کو نیلسن منڈیلا سے ملاقات کرنا تھی۔ ان کے دفتر نے کہا: مشکل ہے، بہت مشکل۔ آخر کو پیغام ملا کہ ناشتے سے پہلے آجائیے۔ دنیا بھر سے مقبول ترین لیڈر کو آئے دن مدعو کیا جاتا۔

اس ملک کے لیے وہ کیسے وقت نکالتا، جنوبی افریقہ سے جو بہت دور تھا۔ کچھ زیادہ لین دین بھی نہ تھا۔ مشترکہ موضوعات بھی کم۔ اس کے باوجود پاکستان کے ذکر پہ منڈیلا کی بوڑھی آنکھیں چمک اٹھیں۔ کہا: میں ضرور جاؤں گا۔ سیّد مشاہد حسین کو وہ دن آج بھی یاد ہے، جب کراچی کے ہوائی اڈے پر وہ ان کا سواگت کرنے گئے۔ افریقی لیڈر نے کہا تھا: میری آرزو یہ ہے کہ اپنے ہیرو کے مزار پر حاضر ی کے بعد دارالحکومت جاؤں۔ ”قائد اعظم محمد علی جناح‘‘ انہوں نے کہا اور دیر تک ان کے مرقد پر مو ء دب کھڑے رہے۔ قائد اعظم کا وصف کیا تھا، وہ جدید میں قدیم اور قدیم میں جدید تھے۔ کبھی جھوٹ نہ بولا، کبھی وعدہ نہ توڑا، کبھی خیانت کا ارتکاب نہ کیا۔ ان ابدی اصولوں کے وہ حامل تھے، جو زندگی کو بامعنی، مثبت اور ثمر خیز بناتے ہیں۔

جدید ترین بھی تھے۔ اخبار انہوں نے نکالا، فضائی کمپنی ان کی رہنمائی میں تشکیل پائی، مرکزی بینک، انشورنس کمپنی۔ یہ وہ تھے، جنہوں نے پارسی، بوہرہ اور میمن تاجروں کو ممبئی اور دہلی سے کراچی آنے پر آمادہ کیا۔ ”پاپائیت؟‘‘ ایک ہندو اخبار نویس نے پوچھا تو ان کا جواب یہ تھا: یہ مسخرہ پن ہے۔ ہم ایک جدید مسلم ریاست تعمیر کریں گے۔ سوشلزم اور سرمایہ پرستی کی تاریکیوں میں جو ایک مثال بنے گی۔ سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب میں انہوں نے کہا: سرمایہ دارانہ یا سوشلسٹ نہیں، ہم اسلامی اقتصادیات کے حامی ہیں۔ مفلسوں کے لیے زکوٰۃ اور صدقات کا دوہرا حفاظتی انتظام۔ کاروبار کی مکمل آزادی مگر دولت سے محبت ہر گز نہیں۔ دنیا نہیں آخرت۔ فقط معاش نہیں، اخلاق بھی۔ چودہ صدیاں پہلے وہ زمانہ جو گزر گیا مگر مسلم اجتماعی لاشعور میں ہمیشہ زندہ رہے گا غریبی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا قوم کے باپ نے کہاتھا: جاگیرداروں اور صنعت کاروں کو عامیوں کا لہو چوسنے کا موقع نہ دیا جائے گا۔ فرمایا: قرآن ہمارا دستور ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جب کہا: امید ہے کہ آپ اکبرِاعظم کی راہ چلیں گے تو کہا:

جمہوریت کا سبق ہم نے چودہ سو سال پہلے سیکھ لیا تھا۔ نوجوان اخبار نویس نے ٹھیک کہا: قائدا عظم مولوی نہیں تھے۔اسلام میں مولوی کا کیا کام؟ مذہبی طبقہ تو زوال کے دور میں پیدا ہوتاہے۔ سیکولر بھی وہ نہیں تھے۔ پوری سیاسی زندگی میں ایک باربھی یہ اصطلاح انہوں نے استعمال نہ کی۔ روادار اور مکمل روادار۔ ان کے وزیرِ خارجہ کون تھے؟ کیا ایک شودر کو انہوں نے وفاقی وزارت نہ سونپی تھی؟ سیاسی لیڈر کتنا ہی عظیم ہو، کیسی ہی اخلاقی عظمت کا امین، وہ روحانی قیادت کا بدل نہیں ہوتا؛ وہ سچے تھے؛ چنانچہ خود کہا تھا: میں فقط ایک سیاستدان ہوں۔ کٹھ ملّا قائداعظم کا مخالف کیوں ہے؟ ملحد اور مغرب سے مرعوب ژولیدہ فکری کا مارا سیکولر کیوں؟ کوئی اگر غور کرے تو جان لے۔

اس کے لیے مولوی اور مغرب سے نجات پا کر اللہ کی کتاب، سیرت، تاریخ اور جدید اداروں کے گہرے مطالعے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہیں تو اہلِ علم کی صحبت۔ پاکستان آج بھی ایک عظیم قوت ہے۔ دنیا کی بہترین فوج، اگر بھارت کے برابر 16فیصد ٹیکس وصول کیاجائے تو معاشی طور سے پوری طرح خود کفیل۔ مگر قیادت؟ المیہ یہ ہے کہ مذہب اور سیاست کو ادنیٰ ترین لوگوں پر ہم نے چھوڑ دیا۔مان لیا کہ کپتان کی نیت اچھی ہوگی مگر عملاًاس کی پارٹی اور دوسری جماعتوں میں فرق کیا ہے؟ ملک کو نئی سیاست درکار ہے۔ نئی پارٹی نہ سہی، ایک پریشر گروپ ہی۔ وہ لوگ کہاں ہیں، جو اقتدارنہیں، فقط ملک و ملت کے لیے بروئے کار آئیں۔ ایسے لوگ ناکام ہو ہی نہیں سکتے۔ اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ خلوص اور حکمت کبھی رسوا نہیں ہوتے۔ پھر یہ کہ راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے ۔ کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے ستارہء سحری ہم کلام کب سے ہے

About admin

Check Also

25+ Times People Thought Of Stupid Solutions That Actually Work

The only limit to accomplishing anything in life is your imagination. However, creativity and inventions …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *