لاہور (ویب ڈیسک) گزرے منگل کی رات بے خوابی سے بیزار ہوا اپنا فون اٹھاکر ٹویٹر دیکھنا شروع ہوگیا۔فون کھولتے ہی جو پہلاٹویٹ نظر آیا وہ امریکی صد ر ٹرمپ کی حسین وجمیل دُختر نے لکھا تھا جس کے ساتھ ہمارے زلفی بخاری صاحب کو ملاقات کا شرف بھی نصیب ہوچکا ہے۔نامور کالم نگار نصرت جاوید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ایوانکا ٹرمپ نے اس ٹویٹ کے ذریعے بہت گرم جوش انداز میں اطلاع یہ دی کہ 21دسمبر کو دو اہم ترین سیارے-زحل اور مشتری- ایک دوسرے سے محض دس ڈگری کے فاصلے پر ہوں گے۔
ان دوستاروں کا ایسا ملاپ اس سے قبل بقول ایوانکا 1226میں ہوا تھا۔ایوانکا نے مگر یہ نہیں بتایا کہ مذکورہ ملاپ دُنیا پر کیاعذاب یا رحمت لایا تھا۔وہ بیان کردیتی تو اندازہ لگانے میں آسانی ہوجاتی کہ تقریباََ 800برس بعد ہونے والا یہ ملاپ اب کی بار کیا گل کھلائے گا۔ایوانکا کے ٹویٹ نے مگر تھوڑی تحقیق کو مجبور کردیا۔بے خوابی کی اذیت بھلانے کا بہانہ بھی مل گیا۔اپنی ’’تحقیق‘‘ کا آغازمیں نے علی اولومی کے ٹویٹر پر لکھے ایک Threadسے کیا۔وہ ’’اسلامی تاریخ‘‘کا پروفیسر ہے۔ اس حوالے سے عباسی خلافت کے دور کے نمایاں ثقافتی رویوں پر بھی گہری نگاہ رکھتا ہے۔ستاروں کی چال کے حوالے سے اس کی تحقیق پر توجہ دیتے ہوئے مجھے اطمینان رہتا ہے کہ میں ہندوئوں کے ’’ویدک‘‘ جنترمنتر پر انحصار نہیں کررہا۔علی اولومی کے بقول عباسی خلفاء جس ستارہ شناس کو سب سے زیادہ مستند گردانتے تھے اس کا نام ماشاء اللہ بوشعر تھا۔اس کے نام سے مگر دھوکا نہ کھائیے گا۔وہ یہودی مذہب کا پیروکار تھا۔بہرحال بنیادی طورپر مذکورہ ستارہ شناس کی تحریروں پر انحصار کرتے ہوئے علی اولومی نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مشتری اورزحل ہر 20برس بعد کسی ایک برج میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ان کا ملاپ جب بھی ہو تو کوئی ’’بڑا واقعہ‘‘ رونما ہوجاتا ہے۔ہر 20برس کے بعد ان دوسیاروں کا ملاپ گویا اس حوالے سے معمول ہے
جس کے نتیجے میں اگرچہ کوئی نہ کوئی اہم بات ہوجاتی ہے۔یہ جاننے کے بعد مگر میرے ذہن میں سوال یہ اٹھا کہ اگر زحل اور مشتری کا ملاپ ہر 20برس بعد ہوا کرتا ہے تو 21دسمبر 2020میں ہونے والے ملاپ کے بارے میں ٹرمپ کی بیٹی اتنا Excitedکیوں نظر آئی۔اس نے 1226والے ملاپ کا حوالہ بھی کیوں دیا۔مزید’’تحقیق‘‘کو لہٰذا مجبور ہوگیا۔فون کے بٹن دباتے دباتے بالآخر دریافت یہ کیا کہ زحل اور مشتری کا ہر بیس برس بعد ملاپ اپنے تئیں کوئی اہم بات نہیں ہے۔توجہ اس امر پر دینا ہوتی ہے کہ وہ کس برج میں مل رہے ہیں اور ان کا ’’مقابلہ‘‘ کونسے برج میں بیٹھے سیاروں سے ہورہا ہے۔اس عمل کو نجومی حضرات Triplicityکہتے ہیں۔میں اس کا اُردو متبادل ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں۔بے خوابی کی وجہ سے مسلط ہوئی ’’عطائی تحقیق‘‘ کی بدولت دریافت یہ بھی ہوا کہ مبینہ طورپر ہمارا مقدر طے کرنے والے 12بروج ہیں۔یہ بنیادی طورپر چار خصوصیات کے حامل ہیں۔کچھ ستارے ’’آتشی‘ ‘ہیں۔چند ’’آبی‘‘۔ دیگر کا تعلق زمین اور ہوا سے ہے۔بتایا یہ جارہا ہے کہ گزشتہ 900برسوں سے مشتری اور زحل ابھی تک کسی ایسے برج میں جمع نہیں ہوئے تھے جسے Air Signکہا جاتا ہے۔
21دسمبر 2020کو یہ دونوں ہوا جیسی خصوصیت رکھنے والے Aquariusیعنی دلو برج میں مل رہے ہیں۔دلو کو عوام کا حاکم سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔زحل نظم وضبط کا تقاضہ کرتا ہے۔مشتری اس کے مقابلے میں ’’نظام کہنہ‘‘ کو للکارتے ہوئے نئے نظام کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔یہاں تک پہنچنے کے بعد معاملات میری سمجھ سے بالاتر ہونا شروع ہوگئے۔بنیادی پیغام مگر یہ ملا ہے کہ 21دسمبر2020کو مشتری اور زحل کا جو ملاپ برج دلو میں ہونا ہے وہ دُنیا بھر کے عوام کو اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو اُکسائے گا۔حکمران ریاستی جبر کے بھرپور اور وحشیانہ استعمال کے باوجود غصے سے بپھرے عوام پر قابو پانے میں ناکام رہیں گے۔حکومتی کنٹرول کے جو ڈھانچے گزشتہ 800برسوں کے دوران متعارف ہوئے ہیں وہ پاش پاش ہوجائیں گے۔اس کے مقابلے میں عوام ’’امدادِباہمی‘‘ جیسا کوئی نیا نظام منظرِ عام پر لے آئیں گے۔یہ سب جان کر دل کو بہت تسلی ہوئی۔ یہ بات مگر ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہوں کہ امریکی اشرافیہ کی ایک بہت ہی تگڑی نمائندہ یعنی ایوانکا ٹرمپ حکمرانوں کے لئے ’’بدخبری‘‘ لاتے اس ملاپ کے بارے میں اتنی خوش کیوں محسوس کررہی ہے۔