Home / پاکستان / عمران اینڈ کمپنی ہاتھ دھو کر چیئرمین الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجہ کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے

عمران اینڈ کمپنی ہاتھ دھو کر چیئرمین الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجہ کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے

Sharing is caring!

سابق ڈی آئی جی پولیس اور نامور کالم نگار ذوالفقار احمد چیمہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔حیران کن بات ہے کہ ایک معروف کھلاڑی یہ بات سمجھنے سے انکاری ہے کہ کرکٹ کا میچ ہو یا انتخابات کا دنگل، ایک ٹیم یا ایک فریق اپنی مرضی کے رولز لاگو نہیں کرا سکتا، وہ یہ بنیادی اصول نہ صرف سمجھنے سے انکاری ہے بلکہ انتخابی معرکے کا ایک فریق ہوتے ہوئے اپنی مرضی کے

قواعد نافذ کرنے پر بضد ہے۔کیا عمران خان صاحب نے دنیائے کرکٹ میں کبھی ایسا ہوتے دیکھا ہے کہ ان کی مخالف ٹیم ان کی اجازت یا منظوری کے بغیر اپنے مرضی کے رولز نافذ کرادے اور وہ خاموش رہیں۔ ایسی صورت میں کوئی بھی ٹیم خاموش نہیں رہ سکتی۔ یاتو وہ سخت احتجاج کرکے یکطرفہ قواعد کو تبدیل کرادے گی یا میچ کا بائیکاٹ کردے گی۔سوال یہ ہے کہ جو فریق الیکڑانک ووٹنگ

مشین (EVM)کے ذریعے الیکشن کرانے پر بضد اور بیتاب ہے، کیا وہ عدل و انصاف کے جذبے سے مغلوب ہوکر منصفانہ الیکشن کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کرنا چاہتا ہے؟ حکمرانوں کا تین سالہ ریکارڈ اس مفروضے یا حکومتی دعوے کی نفی کرتا ہے۔ ریکارڈ ایسا ہے کہ ان کے دعوے پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرسکتا۔نہ تم بدلے نہ میں بدلا نہ دل کی آرزو بدلی۔۔میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں،۔۔کوئی ایک واقعہ نہیں درجنوں واقعات کی سیریز نے حکومت کی سوچ بے نقاب کی ہے۔ ایسی حکومت جس نے احتساب کو ذاتی انتقام میں بدل دیا ہو، جو اپنے سیاسی مخالفین پر جھوٹے کیس

بنوانے، انھیں گرفتار کرانے جب کہ کرپشن کے الزامات زدہ اپنے ساتھیوں کو بچانا معیوب یا غیر اخلاقی نہ سمجھتی ہو۔ جوقومی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز سمجھتے ہوں۔جو پولیس اور ایف آئی اے کے بدنام افسروں کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنا درست سمجھتے ہوں، جو اپنے ہارے ہوئے امیدواروں کے ناجائز کام نہ کرنے والے افسروں کے تبادلے کرادینا صحیح سمجھتے ہوں۔جو ہر قیمت پر انتخابات جیتنا چاہتے ہوں اور اس کے لیے سرکاری مشینری ، پولیس اور انتظامیہ کو استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہوں۔ جو ضمنی انتخابات میں اپنا آلۂ کار بننے سے

انکار کرنے والوں کو دور دراز ٹرانسفر کرادیتے ہوں۔جو انتخاب جیتنے کے لیے پریذائیڈنگ افسروں کو اغواء کراتے ہوں اور جو چاہتے ہوں کہ ان کے امیدوار کو الیکشن میں کامیاب کرانے کے لیے پٹواری سے لے کر چیف سیکریٹری تک اور سپاہی سے لے کر آئی جی تک پارٹی ورکرز کی طرح کام کریں۔جو ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کرانے والے افسران کو نہ صرف تخفّظ دیں بلکہ انھیں تھوڑی دیر کے لیے(گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لیے) ٹرانسفر کرنے کے بعد انعام کے طور پر پہلے سے بھی اچھی پوسٹنگ دیں۔جو مرضی کے فیصلے نہ دینے والے جج صاحبان کے خلاف

ریفرنس داخل کرادیں اور انکوائریاں شروع کرادیں۔ جو میڈیا پر اپنی مرضی کی خبریں دیکھنا چاہتے ہوں اور ان کی خواہش کے برعکس لکھنے ، بولنے والے صحافیوں کا روزگار چھین لیںاور جو میڈیا کا قلع قمع کر دینے کی کوشش کررہے ہوں۔ جو چاہتے ہوں کہ بی آرٹی کی کبھی انکوائری نہ ہو اور فارن فنڈنگ کیس کا کبھی فیصلہ نہ ہو۔ جو اپنی خواہش کے برعکس سوچنے والے قومی اداروں پر چڑھ دوڑیں اور وزیروں کے ذریعے ان کی توہین اور تذلیل کرانے کو اپنا وطیرہ بنالیں۔جو اپوزیشن کا وجود ہی برداشت نہ کرتے ہوں اور اسے ختم کردینے کے درپے ہوں جو مخالف فریق کے ساتھ بیٹھ کر

اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ذرا سی بھی سنجیدہ کوشش کرنے پر تیار نہ ہوں۔ جو قائدِ حزبِ اختلاف کے ساتھ مشاورت کرنے کا آئینی تقاضا پورا کرنے کے بجائے یکطرفہ طور پر متنازعہ افراد کو ایکسٹینشن دینے کا غیر آئینی راستہ اختیار کرنے پر تُلے ہوئے ہوں اور جو EVMاِشو پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کے بجائے ہر قیمت پر مشکوک مشینیں لانے پر تلے ہوئے ہوں، وہ حکومت اور پارٹی لیڈران منصفانہ الیکشن کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ان کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ وہ اچانک انصاف کے علمبردار بن گئے ہیں اور منصفانہ انتخاب چاہتے ہیں، ایں خیال است و محال است

وجنوں (ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا)۔ ان کی سوچ اور طرزِعمل کا موازنہ صرف ڈکٹیٹروں سے کیا جاسکتا ہے۔ ایسی سوچ کا انصاف، میرٹ یا جمہوریت سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہوسکتا۔ ان کی نیت یا ترجیح اپوزیشن کے ساتھ ملکر انتخابات کو غیر منصفانہ بنانے والے عوامل کو دور کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کے کیمپ میں جو چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں وہ indecent haste، ضد اور بیتابی ہے۔ جس میں الیکشن کو سب کے لیے قابلِ قبول بنانے کا جذبہ کلی طور پر مفقود ہے۔وزرائے کرام کا طرزِ عمل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن فیصل ووڈا کا کیس لٹکادے تو غیرجانبدار، فارن فنڈنگ کیس کا

فیصلہ کرنے میں تاخیر کرے تو بہت اچھا مگر واضح دھاندلی پر ایکشن لے تو جانبدار (ویسے میرے خیال میں ڈسکہ الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن کو اسوقت کے آئی جی اور چیف سیکریٹری سمیت دھاندلی میں ملوّث تمام افسروں کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے تھا اور ان کے خلاف کیس درج کرانا چاہیے تھا) اگر سکندر سلطان راجہ نےEVMپر تخفظات کا اظہار کیا ہے تو وزیروں نے اُس پر وہ وہ تہمتیں باندھی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اب وزیروں سے کہلوایا جارہا ہے کہ وہ توسعید مہدی کا داماد ہے جو کسی زمانے میں نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری رہ چکے ہیںاور وہ تومیاں صاحبان کی گھڑی

اور چھڑی ہے۔ کیا اس کے تحفظات کے بعد آپ پر اس کی رشتہ داری کا راز کھلا ہے؟ارے بھائی جب حکومت نے جاوید انور کو ہٹاکر سکندر سلطان کو سیکریٹری ریلوے لگایا تھا تو اُس وقت بھی اس کا مہدی صاحب سے یہی رشتہ تھا۔ جب حکومتی وزیروں نے اس کے لیے ایف پی ایس سی کا ممبر بننے کی سفارش کی تھی، اُس وقت بھی وہ سعید مہدی صاحب کا داماد تھا۔جب عمران خان صاحب نے خود سی ای سی کے لیے اس کا نام تجویز کیا تھا تو اُس وقت بھی انھیں بخوبی علم تھا کہ وہ سعید مہدی صاحب کا داماد ہے۔ وہ تو خیر داماد ہے ، سعید مہدی صاحب کا صاحبزادہ اسلام آباد کا چیف کمشنر اور

چیئرمین سی ڈی اے ہے اور اسے یہ عہدے نوازشریف صاحب نے نہیں عمران خان صاحب نے خود دیے ہیں اور الزام لگانے والے تمام وزیر اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعید مہدی صاحب کے اِس وقت عمران خان صاحب کے ساتھ بہت اچھے مراسم ہیں۔دراصل موجودہ حکمراں ہر ادارے کو اپنا مطیع اور اطاعت گزار بنانا چاہتے ہیں اور جس ادارے کا سربراہ معمولی سی ناں کرے اُس پر سیاست کرنے کا الزام لگا دیتے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے۔EVM کو یہ کہہ کر ساری اپوزیشن نے مسترد کردیا ہے کہ یہ ’’الیکٹرانک دھاندلی‘‘ کرنے کا آلہ ہے جسے دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک مسترد کرچکے

ہیں۔ میرے خیال میں حکومت جانتی ہے کہ مشکوک مشینوں والا چکر نہیں چل سکے گا مگر وہ فارن فنڈنگ جیسے بڑے کیسوں کے فیصلے رکوانے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو دباؤ میں لانا اور متنازعہ بنانا چاہتی ہے جو تشویشناک بھی ہے اور خطرناک بھی

About dnewswala

Check Also

25+ Times People Thought Of Stupid Solutions That Actually Work

The only limit to accomplishing anything in life is your imagination. However, creativity and inventions …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *