نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کپتان نے عوام کو یہ خبر تو دیدی ہے اگلے دو سال بھی مشکل ہیں تاہم ساتھ یہ نہیں کہا آپ نے گھبرانا نہیں ہے، جو تین برس گزر گئے ہیں ان میں بھی کپتان یہی کہتے رہے ہیں بس ایک سال مشکل ہے، پھر اچھے دن آنے والے ہیں، اب تو عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے یہ گانا بھی سنا دیا ہے کہ اچھے دن آئے ہیں مگر وزیر اعظم کی باتوں سے لگتا
ہے ابھی اچھے دن نہیں آئے اور نہ ہی اگلے دو برسوں میں آنے والے ہیں عوام کا تو اب ایک ایک دن مشکل سے گزر رہا ہے، اس پر اگر کپتان نے یہ خبر بھی سنا دی ہے اگلے دو برس بھی مشکل ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے عوام پر کیا گزری ہو گی۔ لیکن وزیر اعظم کے وزیر و ترجمان ان کی اس بات کو بھی گوٹہ کناری لگا کے بیان کریں گے اور کہیں گے دیکھو ملک کا وزیر اعظم کتنا سچا ہے جو
حقیقت ہے بیان کر دیتا ہے،پہلے کبھی دیکھا ایسا وزیر اعظم، نہیں صاحب ایسا سچا اور کھرا وزیراعظم پہلے کبھی عوام نے دیکھا ہی نہیں جو مشکل حالات کی خبر بھی ایسے دیتا ہے جیسے خوشخبری سنا رہا ہو۔ پانچ سال کے لئے حکومت منتخب ہوئی ہے، اس کے پانچوں برس اگر مشکلات میں گزر جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ عوام کو اپنی آئینی مدت کے دوران کوئی ریلیف نہیں دے سکتی تو
ایسی حکومت کو کامیاب کہا جائے گا یا ناکام، ناکامی کا نام تو کپتان سننے کو بھی تیار نہیں، اُنہوں نے کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سے بات کرتے ہوئے پھر اپنے اس مقولے کو دہرایا ہے انسان ہارتا جب ہے جب ہار مان لیتا ہے۔ کپتان نے تو ہار نہیں مانی ان کی حکومت تو چل رہی ہے اور اب چوتھے برس میں داخل ہو گئی ہے تاہم عوام اب ہار گئے ہیں، ان کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے۔ انہیں زندگی کی
دوڑ برقرار رکھنے کے لئے جان کے لالے پڑ گئے ہیں وہ ایک امید کے سہارے زندہ تھے کہ حکومت اپنی باقی ماندہ دو سال کی مدت کے دوران ریلیف نہیں دیتی تو کم از کم مہنگائی کو موجودہ سطح پر ہی منجمد کر دے گی، مگر کپتان نے اگلے دو برسوں میں بھی مشکلات کی گھنٹی بجا کر انہیں مایوس کر دیا ہے۔کپتان کی رجائیت ملاحظہ فرمائیں، ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں آئندہ انتخابات اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جیتیں گے۔ اب کوئی اندازہ لگانے لگے کہ وہ کس کارکردگی کی بات کر رہے ہیں تو سرپکڑ کر بیٹھ جائے۔ کیا مشکلات برقرار رکھنے کی کارکردگی، کیا مہنگائی کو آسمان تک
پہنچانے کی کارکردگی، یا پھر گڈ گورننس میں عروج حاصل کرنے کی کارکردگی، ارے بھائی کون سی کارکردگی، یہاں تو ترقیئ معکوس کا سفر جاری ہے۔ ہر نیا دن عوام کی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے، اب اگر وزراء کی یہ بات مان لی جائے کہ مہنگائی کے سوا تمام اشاریئے مثبت ہیں تو پھر اگلا سوال یہی کرنے کو جی چاہتا ہے اے اقتدار کے مزے لوٹنے والو، مہنگائی کے سوا باقی رہ ہی کیا جاتا ہے۔ اگر معیشت میں بہتری آئی ہے تو اس کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہے، اگر سرمایہ کاری میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے تو ڈالر کیوں روزانہ کی بنیاد پر اوپر جا رہا ہے۔ اگر ادائیگیوں کا توازن
بہتر ہوا ہے تو معیشت کیوں اتنے دباؤ میں ہے۔ اگر گورننس بہتر ہوئی ہے تو خلق خدا بے چین پریشان کیوں پھر رہی ہے۔ کہیں اصلاحات ہوئی ہیں تو کوئی مثال پیش کرو، صرف افسروں کو بدلنے سے حالات میں بہتری کیا پہلے کبھی آئی ہے جو اب آئے گی۔ سب کچھ تو پہلے کی طرح چل رہا ہے۔ اتنی بڑی کابینہ بنا کے قومی خزانے پر بوجھ تو لاد دیا گیا ہے، عوام کو اس سے کیا ریلیف ملا۔ آج تک کسی ایک وزیر کی کارکردگی کا گوشوارہ بھی سامنے نہیں آیا کسی وزیر کا احتساب ہوا اور نہ اس کے محکمے میں اصلاحات کی کوئی تفصیل سامنے آئی۔ یہ کس قسم کی کارکرگی ہے جس کی بنیاد پر
وزیر اعظم یہ دعویٰ کر رہے ہیں اگلا انتخاب وہ جیتیں گے۔ہاں البتہ ایک بات وزیر اعظم عمران خان نے درست کہی ہے۔ اگلا انتخابی دنگل پنجاب میں ہوگا۔ ویسے تو پنجاب ہی ہمیشہ مرکز میں حکومت کا فیصلہ کرتا ہے اس لئے اصل دنگل تو ہوتا ہی پنجاب میں ہے، تاہم وزیراعظم کا یہ کہنا اس بات کا اشارہ ہے کہ انہیں پنجاب میں تحریکِ انصاف کی کشتی بھنور میں نظر آ رہی ہے۔ یہی پنجاب تھا جس نے تحریک انصاف کو گزشتہ انتخابات میں مرکز اور پنجاب کی حکمرانی دلائی تھی اور اب یہی پنجاب ہے جس میں تحریک انصاف کو کنٹونمنٹس بورڈز کے انتخابی دنگل میں چاروں شانے چت گرانا پڑا
ہے۔ اگرچہ کنٹونمنٹس بورڈز کے انتخابات کا پیمانہ اتنا بڑا نہیں ہوتا لیکن جیسے بالائی سے لے کر زیریں پنجاب تک ہر کنٹونمنٹ بورڈ میں تحریک انصاف کو عبرتناک شکست ہوئی ہے وہ معمولی بات نہیں اسے یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بڑے پیمانے پر انتخابات ہوں گے تو نتائج اور نکلیں گے۔ حقیقت یہ ہے پنجاب نے اپنے موڈ کی جھلک دکھا دی ہے۔ اگر مریم نواز کہتی ہیں تمامتر فاشٹ ہتھکنڈوں کے باوجود پنجاب کے عوام نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا ہے تو ان کی بات میں وزن ہے، وہ یہ دعویٰ اس لئے کر سکتی ہیں کہ ان کی جماعت نے تقریباً کنٹونمنٹس بورڈز کے انتخابات میں
سنگل پارٹی کی حیثیت سے کلین سویپ کیا ہے۔ گویا تحریک انصاف کے لئے ایک طرح سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا پنجاب میں سحر ٹوٹ نہیں سکا۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی بھی نپجاب سے تقریباً آؤٹ نظر آتی ہے، کم از کم کنٹونمنٹس بورڈز کے انتخابات نے تو یہی ثابت کیا ہے، ایسے میں پنجاب کا انتخابی دنگل ایک خاص لہر کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور شاید اسی لئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے، اصل انتخابی جوڑ پنجاب ہی میں ہو گا۔پنجاب کے اس وقت دو حصے ہیں، اپر پنجاب اور جنوبی پنجاب، گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے سرائیگی صوبہ محاذ
والوں سے اتحاد کر کے جنوبی پنجاب میں اکثریت حاصل کر لی تھی۔ پھر 90 دن میں سرائیگی یا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہ کام تو نہیں ہو سکا۔ تین سال کے بعد صرف جنوبی پنجاب سکریٹریٹ قائم ہو سکا۔ اس بار تحریک انصاف یہاں کس ایشو پر عوام سے ووٹ مانگے گی۔ جبکہ برے معاشی حالات کا سب سے زیادہ اثر جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں ہوا ہے۔ جہاں پہلے ہی صنعتیں نہ ہونے کیو جہ سے روزگار کے مواقع کم ہیں اور مزدوروں کو اجرت بھی لاہور یا کراچی کے مقابلے میں کم ملتی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام کے حالات دگرگوں ہیں، بزدار حکومت کے
تمامتر دعوؤں کے باوجود اس علاقے میں روزگار کے مواقع بڑھے ہیں اور نہ تیزی سے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ اگلا انتخابی دنگل اگر پنجاب میں ہونا ہے تو اس کا اصل میدان جنوبی پنجاب میں لگے گا کیونکہ اپر پنجاب جس میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا اور راولپنڈی شامل ہیں پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کی طرف سیاسی جھکاؤ رکھتے ہیں۔ ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان تین ایسے ڈویژن ہیں جو انتخابی دنگل میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے تاہم تحریک انصاف کے حالات اب یہاں بھی پہلے جیسے نہیں اگر دو سال مزید یہی مشکلات رہیں تو عوام انتخابی دنگل میں تحریک انصاف کو پچھاڑ دیں گے۔