Home / دلچسپ / آخری رسومات کی ادائیگی میں کیا کچھ ہوتا ہے

آخری رسومات کی ادائیگی میں کیا کچھ ہوتا ہے

Sharing is caring!

نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تدفین کرنا اور میت کو نذرآتش کرنا دنیا میں انتقال کر جانے والوں کو اگلے سفر پر روانہ کرنے کے یہ دو مقبول ترین طریقے ہیں تاہم ان کے علاوہ بھی دنیا میں میتوں کو ٹھکانے لگانے کے کچھ ایسے طریقے رائج ہیں کہ سن کر آپ کی حیرت کی انتہانہ رہے گی۔ جنوبی کوریا میں ایک یہ طریقہ تیزی سے رواج پا رہا ہے کہ وہ انتقال

کرنے والے شخص کی چتا جلا کر اس کی راکھ تسبیح کے دانوں میں بھروا کر تسبیح اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ 2000ء میں جنوبی کوریا میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس میں 60سال بعد قبر کو ختم کر دینا لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس قانون کے منظور ہونے کے بعدانتقال کرنے والوں کی راکھ کی حامل تسبیح بنوانے کا رجحان تیزی سے عام ہو رہا ہے۔تبت کے علاقے میں نہ تو وفات پانے والوں کو

دفن کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں نذر آتش کیا جاتا ہے بلکہ میتوں کو پہاڑ کی چوٹی پر لیجا کر رکھ دیا جاتا ہے جہاں انہیں چیل کوے اور دیگر جانور کھا جاتے ہیں۔ یہ طریقہ چین کے کچھ صوبوں اور منگولیا میں بھی رائج ہے۔ فلپائن میں تینگویان قبیلے کے لوگ اپنے وفات پانے والے افراد کو بہترین لباس پہناتے، ان کے بال بناتے اور زیوارت وغیرہ پہناتے ہیں اور ہفتوں تک میت کو اپنے پاس ہی

رکھتے ہیں۔ اس دوران عموماً وہ میت کے ہونٹوں میں ایک سگریٹ بھی دبائے رکھتے ہیں۔ یہ لوگ میتوں کو اکڑوں بیٹھنے کی حالت میں دفن کرتے ہیں جبکہ خواتین کی میتوں کے ہاتھ ان کے پیروں کے ساتھ باندھ کر دفن کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے یہ خواتین بھوتوں سے محفوظ رہتی ہیں۔فلپائن ہی میں ایگوروٹ (Igorot)نامی قبیلے کے لوگ وفات پانے والوں کے تابوت پہاڑ کے ساتھ

لٹکا کر چلے جاتے ہیں۔ اس قبیلے میں تابوت محض ایک میٹر لمبے ہوتے ہیں کیونکہ یہ لوگ وفات پانے والوں کو اسی حالت میں تابوت میں بند کرتے ہیں جس حالت میں بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔چین کے بعض علاقوں میں انتقال کرنے والے کی آخری رسومات میں نامناسب لباس میں ڈانس کرنے والی لڑکیاں بلائی جاتی ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارہ اس انوکھی روایت پر ایک ڈاکومنٹری بھی بنا چکا ہے۔

مڈغاسکر اور دیگر کچھ علاقوں میں یہ عجیب و غریب رسم پائی جاتی ہے کہ لوگ اپنے انتقال کرنے والوں کو تدفین کے ہر پانچ سے سات سال بعد قبریں کھود کر دوبارہ باہر نکالتے اور انہیں نہلا دھلا کر نیا لباس پہناتے اور دوبارہ دفن کردیتے ہیں۔ دوبارہ دفن کرنے سے پہلے وہ انہیں اچھی طرح تیار کرنے اور پرفیوم لگانے کے بعد ان کے ساتھ ڈانس کرتے ہیں اور میت کے اردگرد بیٹھ کر اس طرح اس

سے باتیں کرتے ہیں جیسے وہ زندہ ہو۔ وہ اسے گزرے سالوں میں پیش آنے والے تمام واقعات سناتے ہیں۔ ڈچ قوم کاشمار دنیا کی طویل قامت قوم میں کیا جاتا ہے، لیکن ناقص اور غیر صحت بخش غذاؤں کے استعمال نے ان کے اوسط قد میں کمی کرنا شروع کردی ہے۔برطانوی اخبارکی رپورٹ کے مطابق نیدر لینڈ کے قومی شماریاتی دفتر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کی سب سے

طویل قامت رکھنے والی قوم کا قد سال بہ سال کم ہوتا جا رہا ہے۔اعداد وشمار کے مطابق 2020 میں 19 سالہ ڈچ نوجوانوں کا اوسط قد 6 فٹ (182.9 سینٹی میٹر) اور خواتین کا قد 5 فٹ 6 انچ تھا۔ حکومتی ادارے برائے شماریات کے مطابق 1958 سے نیدر لینڈ نے اس میدان میں اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہوئی تھی، تاہم 19 سے 60 سال کی عمر کے 7 لاکھ 20 ہزار افراد پر ہونے والے سروے

سے یہ بات سامنے آئی کہ 2001 میں پیدا ہونے والے لڑکوں کا قد 1980 میں پیدا ہونے والی نسل سے 1 سینٹی میٹر اور لڑکیوں کا قد 1 اعشاریہ 4 سینٹی میٹر کم ہے۔رپورٹ کے مطابق ایک صدی قبل تک دنیا کے سب سے طویل قامت افراد کا تعلق شمالی یورپ اور شمالی امریکا سے تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک ڈچ قوم کے اوسط قد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1930 میں پیدا ہونے والے

ڈچ لڑکے کا اوسط قد 5 فٹ 9 انچ اور 1980 میں پیدا ہونے والے لڑکے کا اوسط قد 6 فٹ تھا۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ 50 سالوں میں ڈچ مردوں کے اوسط قد میں 8 اعشاریہ 3 سینٹی میٹر اضافہ ہوا۔اسی طرح 1930 میں پیدا ہونے والی ڈچ لڑکیوں کا اوسط قد 5 فٹ 5 انچ، جب کہ 1980 میں پیدا ہونے والی لڑکیوں کا اوسط قد 5 فٹ 7 انچ تھا، یعنی 50 سالوں میں ان کے قد میں اوسطاً 5 اعشاریہ 3 سینٹی میٹر کا اضافہ ہوا۔اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ابھی ابھی باباجی نے ایس ایم ایس کیا ہے کہ انہوں نے بھی سالن گرم کرنے والا ٹی وی لے لیا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

About dnewswala

Check Also

25+ Times People Thought Of Stupid Solutions That Actually Work

The only limit to accomplishing anything in life is your imagination. However, creativity and inventions …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *