لاہور (ویب ڈیسک) دو ہزار سولہ سترہ کی بات ہے۔ پانامہ کا مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہا تھا۔ عامر متین روز عدالت میں کیس کی سماعت سننے جاتے تھے۔ رات کو ہمارے پروگرام میں ساری روداد بیان کرتے تھے۔ عمران خان صاحب روزانہ عامر متین کو سپریم کورٹ میں ملتے نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے پروگرام کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے تھے۔ انہوں نے کئی بار عامر متین‘ ارشد شریف اور میرا نام ٹی وی انٹرویوز اور جلسوں میں بھی لیا۔
اب انہوں نے عامر متین کو کہنا شروع کیا کہ میرا اپنے شو کیلئے انٹرویو کریں۔ مجھے بنی گالہ سے انکے سیکرٹری نے کئی دفعہ کال کرکے کہا کہ خان صاحب آپ لوگوں کو انٹرویو دینا چاہتے ہیں۔ ان دنوں خان صاحب روز تین چار انٹرویو دے رہے تھے۔ وہ ہر جگہ وہی باتیں دہرا تے۔ ہم نے کہا: ہمارے شو کا فارمیٹ مختلف ہے‘ لہٰذا ہم انٹرویوز نہیں کرتے۔ اصرار جاری رہا کہ آپ کا شو زیادہ دیکھا جاتا ہے‘ لہٰذا وہ اپنی بات عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم نے پھر معذرت کی۔ جب اصرار بڑھا تو ہم نے کہا: چلیں آپ ویڈیو لنک پر لائیو ہمارے شو میں آجائیں۔ وہ بولے: نہیں‘ آپ تینوں بنی گالہ آئیں۔ ہم نے کہا: تین لوگ کیسے آپ کا انٹرویو کریں گے؟ یوں وہ لنک پر آنے کو تیار نہ ہوئے اور ہم بنی گالہ نہ گئے۔ یہ تھی انکار کی وجہ۔اب آتے ہیں دو ہزار بیس کے ویڈیو کلپ کی طرف۔ میں نے پچھلے ہفتے اپنے شو میں کہا: خان صاحب اب ہمیں انٹرویو دیں۔ ہمیں علم ہے‘ وہ انٹرویو نہیں دیں گے کیونکہ جب بھی وزیر اعظم کی صحافیوں سے ملاقات ہوتی اور ہم دونوں کوئی سوال کرتے تو وہ ناراض ہوتے تھے ۔ان کی کارکردگی پر بہت سے سوالات
ہیں جو ہم اپنے شوز میں اٹھاتے ہیں، سکینڈلز اور سٹوریز کرتے ہیں۔ اس بات کا خان صاحب اور ان کی ٹیم کو علم ہے کہ وہ کون سے سوالات ہیں جو انہیں مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ شاید آپ کو علم ہو کہ اب اگر وہ انٹرویو کے لیے راضی ہوتے ہیں تو پہلے پوری تسلی کی جاتی ہے کن ایشوز پر بات ہونی ہے اور ان کی میڈیا ٹیم انٹرویو کرنے والے کو کچھ ریڈ لائن سمجھا دیتی ہے۔ مجھے اور عامر کو کبھی اس طرح کے انٹرویوز کا شوق نہیں رہا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ جو کرتے ہیں‘ وہ اچھا نہیں کرتے‘ سب اچھا کرتے ہیں‘ اپنے اپنے حساب سے۔ویسے خان صاحب جب وزیر اعظم بنے تھے اور ان کی صحافیوں سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو میرے خاور مانیکا کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ناراض ہو گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک سوال پوچھا تو پھر ناراض ہو گئے۔ ایک دن سب صحافیوں کے سامنے خان صاحب نے کہا: رئوف کلاسرا‘ عامر میتن اور محمد مالک میری حکومت کا طبی معائنہ کرنا بند کر دیں تو ملکی اکانومی ٹھیک ہوجائے گی۔ اس پر کاشف عباسی نے سب کے سامنے کہا: خان صاحب رئوف کلاسرا اور عامر متین کا شو تو بند ہو چکا محمد مالک کا بھی بند کرا دیں تاکہ ملک ٹھیک ہو جائے۔ اس پر قہقہہ پڑا تھا۔کسی بھی وزیر اعظم کے لیے ایسے رپورٹر کو انٹرویو دینا مشکل ہوتا ہے جو اس کی حکومت اور وزیروں کے سکینڈلز فائل کرتا ہو۔
یہ سیاسی سوالات و جوابات بڑے آسان ہوتے ہیں لیکن جب پوائنٹ بلیک آپ کے ایک ایک قریبی دوست اور تگڑی پارٹیوں کا کچا چٹھا پوری قوم سامنے کھولا جا رہا ہو تو بڑے بڑے رہ جاتے ہیں۔ اس لیے اب جب ہم کہتے ہیں کہ خان صاحب ہمیں انٹرویو دیں کہ اپوزیشن میں انٹرویو دینا آسان ہوتا ہے اور وہ بھی جب آپ نے کبھی حکومت نہ کی ہو‘ لیکن حکومت میں بیٹھ کر درجن بھر سکینڈلز آنے کے بعد انٹرویو دینا کچھ اور ہوتا ہے۔ اگر آپ نے ہمارا شو کبھی دیکھا ہو تو اس میں سکینڈلز اور اندورنی خبریں زیادہ ہوتی ہیں جو کسی بھی حکومت کیلئے پشیمانی کا سبب ہوتی ہیں اور وہ بھی خان صاحب روز سنجیدہ چہرے ساتھ قوم کوجو باتیں بتاتے ہوں ان میں کچھ درست نہیں ہوتیں۔ اب ہم جان بوجھ کر اپنے ٹی وی شو میں تھوڑی سی چھیڑ خانی کرتے ہیں کہ خان صاحب اپوزیشن میں اس وقت تو آپ روز عامر متین کو کہتے تھے میرا انٹرویو کریں‘ اب آپ وزیراعظم ہیں تو ہمیں انٹرویو دیں کیونکہ پوچھنے کے لیے بہت سوالات ہیں۔ اپوزیشن میں خاک انٹرویو کا مزہ آتا ہے۔ بندہ سوالات پوچھے تو اس وقت پوچھے جب بندہ اقتدار میں ہو اور طاقتور ہو۔اب ان دو واقعات‘ جن میں تین چار سال کا فرق ہے‘ کو جوڑ کر قوم کو چورن کھلایا جارہا ہے‘ جو بقول ارشاد بھٹی ہماری مرغوب غذا ہے۔ جو قوم جھوٹ پر پلتی ہو اسے پھر اس طرح کے ہی حکمران ملتے ہیں۔ شکوہ کیسا؟