افغانستان کی نئی قیادت نے مشکل وقت میں مدد کرنے پر پاکستان کے کردار کا اعتراف اور علاقائی روابط کے حامل منصوبوں پر تعاون کی یقین دہانی کرا ئی ہے کہ پاکستان کو یہ وہم نہیں ہونا چاہیے افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی، پھر چاہے وہ تحریک طالبان پاکستان کرنا چاہے یا بلوچ لبریشن آرمی کرنا چاہے، اس کی ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ میری افغان قیادت سے گفتگو بہت تسلی بخش تھی، پاکستان کی قوم مشکل گھڑی میں افغانستان کی قوم کے ساتھ کھڑی ہے، ماضی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج بھی
ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں،اگر کوئی میڈیکل کیس آئے گا تو فوری ویزا فراہم کردیا جائے گا اور اس سے بہت سی جانیں بچ جائیں گی،ویزا درخواستوں کے عمل کو تیز کرنے کیلئے آن لائن ویزا کے اجرا کا فیصلہ کیا جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے،کاروبار کے لیے پاکستان آنے والی افغانستان کی کاروباری شخصیات کو ملک آمد پر فوری طور پر 30دن کا ویزا جاری کردیا جائیگا اور اس کے لیے کوئی سیکیورٹی کلیئرنس درکار نہیں ہو گی،معاشی طور پر افغانستان کی مدد کرنے کے لیے پاکستان کے تمام پھل اور سبزیاں کو کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس عائد کیے بغیر افغانستان امپورٹ کرنے کی اجازت ہو
گی،پیدل گزرنے والوں کے لیے اوقات کو آٹھ گھنٹے سے بڑھا کر 12 گھنٹے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے لوگوں کو آسانی ہو گی۔ جمعرات کو دورہ افغانستان کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری افغان وفود سے چند طے شدہ ملاقاتیں وقت کی قلت کے سبب نہ ہو سکیں لیکن ان سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔انہوں نے کہا کہ میری سابق صدر حامد کرزئی، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار کے ساتھ فون پر گفتگو ہوئی اور ہونے والی ملاقاتوں کے خلاصے سے انہیں آگاہ کیا اور انہیں اعتماد میں لیا۔وزیر خارجہ نے کہاکہ ہمارے ساتھ جانے والے وفد میں ان
تمام امور کے سینئر عہدیدار اور حکام موجود تھے جن پر ہم نے افغان قیادت سے بات کرنی تھی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری افغان قیادت سے گفتگو بہت تسلی بخش تھی، گفتگو بڑے اچھے اور دوستانہ ماحول میں ہوئی اور مجھے پاکستانی قوم کو یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ افغانستان کے نئے حکمران مشکل وقت میں افغانستان کی مدد کرنے پر پاکستان کے کردار کے معترف تھے۔انہوں نے کہاکہ میں نے بھی انہیں پیغام دیا کہ پاکستان کی قوم اس مشکل گھڑی میں افغانستان کی قوم کے ساتھ کھڑی ہے، ہم نے ماضی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج بھی ہم ان کے
ساتھ کھڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کو اس وقت اقتدار کی منتقلی اور انسانی اور معاشی بحران کا چیلنج درپیش ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان ہر ممکن حد تک اپنا کردار ادا کررہا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان قیادت سے نشست کے بعد مختلف گروپوں سے بات ہوئی جس میں ان کے ویزا، تجارت اور سرحدی نقل و حرکت کے متعلق ان کے مسائل کو سنا اور ہمارے تحفظات سے انہیں آگاہ کیا۔انہوں نے کہ جو نشست ہوئی ہے اس کے بعد جلد افغانستان سے ایک وفد اسلام آباد آئے گا تاکہ جو بات ہم نے چھیڑی ہے اس کو حتمی انجام تک پہنچایا اور چھوٹے موٹے مسائل کا فی الفور
ازالہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ علاقائی روابط کے حوالے سے اہمیت کے حامل منصوبوں پر بھی نئی افغان قیادت سے بات ہوئی اور ان تمام منصوبوں پر ان کے وزیر اعظم اور بقیہ قیادت نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔انہوں نے کہا کہ 15 اگست کے بعد درپیش کچھ پیچیدگیوں کو بھی دور کرنے پر گفتگو ہوئی تاکہ سرحدی مینجمنٹ مؤثر ہو سکے، افغان حکومت کو گیٹ پاس متعارف کرانے پر اعتراض تھا کیونکہ اس سے ان کے بقول تاخیر ہوتی تھی تو اس پر انہیں بتایا گیا کہ حکومت پاکستان نے غوروخوض کے بعد اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان قیادت کے
تحفظات کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی میڈیکل کیس آئے گا تو انہیں فوری ویزا فراہم کردیا جائے گا اور اس سے بہت سی جانیں بچ جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ ویزا درخواستوں کے عمل کو تیز کرنے کیلئے آن لائن ویزا کے اجرا کا فیصلہ کیا جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے جبکہ کاروبار کے لیے پاکستان آنے والی افغانستان کی کاروباری شخصیات کو ملک آمد پر فوری طور پر 30دن کا ویزا جاری کردیا جائیگا اور اس کے لیے کوئی سیکیورٹی کلیئرنس درکار نہیں ہو گی۔انہوں نے کہاکہ کابل میں پاکستانی سفارتخانے کو بھی اختیار دے دیا ہے کہ وہ ازخود پانچ سال کے لیے ملٹی اینٹری ویزا
دے سکتے ہیں، ہماری بزنس مین ویزا لسٹ میں پہلے افغان کاروباری شخصیات موجود نہیں تھیں لیکن ان کو شامل کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی طور پر افغانستان کی مدد کرنے کے لیے پاکستان کے تمام پھل اور سبزیاں کو کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس عائد کیے بغیر افغانستان امپورٹ کرنے کی اجازت ہو گی جس سے یقینا ان کی معیشت اور کسان و کاشتکار کو فائدہ ہو گا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم معاشی استحکام میں افغانستان کی مدد کے لیے تیار ہیں اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے اور ان کے ماہرین آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کریں گے کہ مزید کون سی اشیا ہے جن کی ڈیوٹی کو ہم ختم یا کم کر سکتے ہیں تاکہ ان کی ایکسپورٹ میں آسانی ہو۔انہوں نے کہا کہ سرحد پر نقل و حرکت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے دو فیصلے کیے ہیں، پیدل گزرنے والوں کے لیے اوقات کو آٹھ گھنٹے سے بڑھا کر
12 گھنٹے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے لوگوں کو آسانی ہو گی۔انہوں نے کہاکہ تجارت میں ٹرکوں کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ تجارت کی حد تک سرحد 24 گھنٹے کھلی رہے گی جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان قیادت نے ہمیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہوتے ہوئے پاکستان کو یہ وہم نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی، پھر چاہے وہ تحریک طالبان پاکستان کرنا چاہے یا بلوچ لبریشن آرمی کرنا چاہے، اس کی ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔