میری پوری زندگی میں یہ پہلا مرد ہے جو ۔۔۔۔۔۔وہ وقت جب جنرل ضیاء الحق نے عمران خان کے دونوں گالوں کا بوسہ لیا ، معروف دانشور انور مقصود نے ایسا سحر انگیز واقعہ بیان کر دیا جو پڑھ کر آپ فخر سے جھوم اُٹھیں گے۔۔۔۔۔۔لاہور ( مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر ادیب اوردانشور انور مقصود نے انکشاف کیا ہے کہ 54 برس ہو گئے مجھے لکھتے ہوئے۔ سب سے زیادہ میں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں لکھا۔ضیاء الحق کے دور میں سنسر شپ بہت سخت ہوتی تھی، مجھے معلوم ہوتا تھا کہ جملے کٹ جائیں گے لیکن میں پھر بھی لکھا کرتا تھا۔
انور مقصود نے بتایا کہ میں کرکٹر بھی بہت اچھا تھا اور عمران خان کا دوست بھی تھا، ایک دن ضیاء الحق کے بیٹے انوار الحق میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ عمران خان ریٹائر ہوگئے ہیں ۔ میرے والد ( جنرل ضیاء الحق ) نے انکی ٹربیوٹ پیش کرنے کا لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ تقریب میں ہوسٹ کی ذمہ داریاں آپ نبھائیں۔ انور مقصود نے بتایا کہ میں تقریب کے لیے اسلام آبد چلا گیا جہاں پہلے مجھے ضیاء الحق کے گھر جانا پڑا ، میری جب ضیاء الحق سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ تقریب کا وقت 9 بجے کا ہے پھر اس کے بعد مجھے فرانس کے سفیر کے پاس جانا ہے۔ آپ وقت کا خیال رکھیئے گا۔ جس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا ” جی ہاں ” ۔ انور مقصود نے بتایا کہ 20سے 25 ہزار افراد تقریب میں موجود تھےاور سٹیڈیم بھرا ہوا تھا۔ میں نے عمران کو اسٹیج پر بلایا اور کہا کی 1971 پاکستان کے لیے اچھا نہیں تھا۔ ملک میں افرا تفری کا سماں تھا اور ملک میں آگ لگی ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے 16971 میں ایک نوجوان کو بھاگتے ہوئے دیکھا کہ وہ نوجان عمران خان تھا جسے پاتے ہی ہم نے 1971 کا دکھ کم ہوگیا۔ کیونکہ عمران خان نے اپنے کیرئیر کا آغاز اسی سال کیا تھا۔ انور مقصود کا کہنا تھا کہ میں نے تقریب میں کہا کہ جنرل صاحب! عمران کپتان ہونے کے باوجود ریٹائرڈ ہورہا ہے جبکہ ہمارے ہاں کپتان ریٹائر نہیں ہوتے۔ انور مقصود نے کہا کہ عمران بڑے اسٹائل سے نیچے اتر کر آئے تو جنرل صاحب نے آگے بڑھ کر عمران خان کے دونوں گالوں پر بوسہ دیا۔ مائیک چونکہ میرے پاس تھا تو میرے منہ سے بے ساختہ جملہ نکلا کہ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی مرد کو عمران خان کو پیار کرتے دیکھا ہے۔ میرا یہ جملہ سنتے ہی جنرل صاحب نے مجھے کہا کہ آپ نے کیا کہا؟ جسکا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ سر کچھ نہیں آپ عمران کو میڈل دے دیں۔ انور مقصود نے کہا چونکہ مجھے تقریب کاوقت آدھا گھنٹہ دیا گیا تھا لیکن میں بولتا گیا اور ساڑھے نو اور پھر ساڑھے دس بج گئے۔
وہاں پر پاکستان نیوی اور ائیر پورٹ کے چیف بھی بیٹھے تھے اور تقریب اڑھائی بجے تک جاری رہی۔ اور میں بولتا چلا گیا۔ جب پروگرام ختم ہوا تو میں اپنے ہوٹل آگیا لیکن آدھا گھنٹہ گزرتے ہی ضیاء الحق کے صاحبزادے میرے پاس آئے اور کہا کہ والد صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں گھبرا گیا ار اپنے بھائی کو فون کیا جو ان دنں چیف سیکرٹری سندھ تعینات تھے انہوں نے مجھے کہا کہ پروٹوکول ہے انور تمہیں جانا پڑے گا۔ انور مقصود نے کہا کہ میں ان سے ملنے گیا اور جب انکے گھر پہنچا تو اندر تینوں مسلح افواج کے چیفس بیٹھے ہوئے تھے۔ ۔ مجھے مخاطب کرتے ہوئے جنرل ضیاء نے کہا کہ میں نے آپ کو آدھا گھنٹے کا ٹائم دیا تھا لیکن آپ کی بیہودہ تقریر سنتے ہوئے اڑھائی بج گئے۔ اس کا جواب ہے آپ کے پاس؟ جس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ سر آپ کو عادت ہے رات دیر تک جاگنے کی ۔90 دن کے لیے آئے تھے اور آٹھ سال ہوگئے اگرآدھے گھنٹے کے لیے آئے اور تین گھنٹے بیٹھنا پڑ گیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میری یہ بات سنتے ہی وہ زور سے ہنسیں اور وہاں پر فوجی افسران کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ میں سے کسی میں یہ کہنے کی ہمت ہے جو بات آج انور مقصود نے کہی ہے؟ انور مقصود نے انکشاف کیا کہ انہوں نے مجھے کہا کہ انور تمہاری جگہ آج کوئی اور ہوتا تو وہ آج نظر نہ آتا ۔