سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔سویلین بالادستی انقلابی مزاحمت اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر پڑے گا۔معروف صحافی اعزاز سید نے کہا کہ اس وقت نواز شریف کے پاس تین بڑے آپشن موجود ہیں، انہوں نے برطانیہ میں ویزے کی توسیع کے لیے درخواست دی ہے۔ وہ سعودی عرب یا قطر بھی منتقل ہوسکتے ہیں تاہم سعودی عرب قطر منتقل ہونے کے بعد وہ صرف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
ارشاد بھٹی نے کہا کہ سویلین بالادستی، انقلابی، مزاحمت اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر فرق پڑے گا۔تین دفعہ کے وزیراعظم اور ان کی پارٹی پر بھی اثر پڑے گا۔نواز شریف کو واپس لانے کے لئے بحث ہونی چاہیے، سال سے اوپر ہو گیا ہے لیکن ایک دن بھی ان کا علاج نہیں ہوا۔ ضمانت کی معیاد ختم ہو چکی ہے ،عدالت دو مقدموں میں اشتہاری قرار دے چکی ہے، اگر وہ واپس نہیں آئے تو پاسپورٹ بھی منسوخ نہ کیا جائے ، کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔دوسری جانب سینئرصحافی رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی آئندہ چند دنوں میں ان کے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہونے والی ہے۔اگر نواز شریف اپنا پاسپورٹ ری نیو کرواتے تو ان کا برطانیہ میں قیام غیر قانونی ہو جائے گا۔
خبریں آ رہی ہیں کہ وہ سعودی عرب یا قطر میں سیاسی پناہ بھی لے سکتے ہیں۔اگلے ایک ماہ میں انہوں نے اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ رؤف کلاسرا کا مزید کہنا ہے کہ اس معاملے پر وزیراعظم نے ایک غیر رسمی میٹنگ بھی کی ہے جس میں اہم حکومتی اراکین شریک ہوئے۔حکومت سمجھتی ہے کہ نواز شریف ری نیول کے لیے درخواست نہیں دیں گے،اور نہ وہ پاکستان آئیں گے۔ نواز شریف یا تو برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہو گا۔ برطانوی حکومت کو بھی سوچنا ہو گا کہ ایک ملک کی حکومت کو ایک شخص کے لیے ناراض کیا جا سکتا ہے۔