امریکہ میں ق ی د ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے پاکستانی قونصلر جنرل سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروائی جانے والی وزارت خارجہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 15 دسمبر کو پاکستانی قونصلر جنرل ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کے لیے گئے لیکن جیل حکام نے بتایا کہ
ڈاکٹر عافیہ صدیقی ملاقات نہیں کرنا چاہتیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 24 ستمبر کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ایک ملاقات ضرور ہوئی تھی۔ گذشتہ سال کورونا کی وجہ سے بھی امریکی جیلوں میں ق ی د یوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ معطل رہا تاہم ڈاکٹر عافیہ کی صحت سے متعلق آگاہی کے لیے جیل حکام سے رابطے میں ہیں، ڈاکٹر عافیہ نے 24 ستمبر کی ملاقات میں بتایا ان کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ رحم کی درخواست ق ی ی خود جیل وارڈن یا بذریعہ ڈاک دائر کر سکتا ہے، وکیل کی تعیناتی کے بغیر ایک ہی حل تھا کہ ق ی دی خود جیل وارڈن کے ذریعے درخواست دائر کرے۔یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامرفاروق کی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے دائر درخواست پر وزارت خارجہ کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری سطح کے افسرکو طلب کیا تھا۔
دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے استفسارکیا کہ کیا پاکستان نے امریکہ سے حکومتی سطح پر یہ معاملہ اٹھایا ہے؟ چار سال بعد یہ کیس لگا اورہم آج بھی وہاں ہیکھڑے ہیں جہاں چارسال پہلے تھے۔جج نے استفسار کیا وزارت خارجہ اس معاملے میں اس قدر پرسکون کیوں ہے؟ہر شہری کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جس سے وہ مبرا نہیں ہوسکتی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کا بتایا کہ ہمارا قونصلر ماہانہ بنیاد پر عافیہ صدیقی کو دیکھنے جاتا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ میں بہت کچھ لکھ دیتے لیکن اصل میں کچھ نہیں ہوتا، جتنی بھی کوششیں کیں اس سے متعلق دستاویزات سامنے رکھ کر آگاہ کریں۔وکیل درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ عافیہ صدیقی کو ا غ وا کیا گیا،کوئی اپڈیٹ نہیں وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ جسٹس عامر فاروق نے ہدایت کی کہ سیکریٹری لیول کا افسر آ کر بتائے کہ اب تک کیا پیش رفت ہوئی؟ عدالت نے استفسار کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کہاں رکھا گیا ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ
انہیں جیل میں رکھا گیا ہے۔ جج نے کہا کہ سری لنکا، ملائیشیا، بھارت سے ق ی دیوں کو واپس لایا گیا لیکن یہ نہیں لا رہے۔عدالت نے دستاویزات کے ساتھ نئی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کو دس فروری تک ملتوی کر دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ برس مئی میں سندھ ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے اضافی جواب سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروایا گیا ، جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ نے پاکستانی حکام سے فون پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔