Home / پاکستان / لاہور کے اچانک کچرا گھر بننے کے پیچھے چھپی کہانی

لاہور کے اچانک کچرا گھر بننے کے پیچھے چھپی کہانی

Sharing is caring!

لاہور (ویب ڈیسک) 2018میں نیا پاکستان بنا تو ترک کمپنی کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم ہونے میں چند ماہ باقی تھے۔وہ گاڑیاں اور مشینری جو لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے ترک کمپنی کے حوالے کی تھیں ان میں سے بیشتر ناکارہ ہوچکی تھیں۔ان کی مرمت کے لئے فنڈز روکے جانے لگے۔

نامور کالم نگار محمد بلال غوری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر روزانہ مکمل ادائیگی کے بجائے 60فیصد رقم دی جانے لگی۔ ادائیگیوں کا توازن بگڑ جانے سے ان ترک کمپنیوں کے 3ارب روپے واجب الادا ہو گئے۔حکومت کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جانے لگا کہ ان کمپنیوں کے ساتھ ٹھیکے بہت زیادہ نرخوں پر کئے گئے ،یہ 14ارب روپے کھا رہی ہیں۔حقیقت یہ تھی کہ ان 14ارب روپوں میں سے10ارب روپے ہمارے سرکاری محکمے LWMCکا سالانہ بجٹ ہے جبکہ 4ارب روپے ان کمپنیوں کو ادا کئے جا رہے تھے۔ترک کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کی تجدید نہ کی گئی۔ ادائیگی سے متعلق ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور پھر آخر کار ان کمپنیوں کے دفاتر اور املاک پر قبضہ کرکے مشینری اور گاڑیاں قبضے میں لے لی گئیں۔اس کام کے بعد ایک پرائیویٹ کنٹریکٹر سے کچراٹھکانے لگانے کا معاہدہ کیا گیا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اس کنٹریکٹر کو 40دن کے 240ملین روپے دیئے جائیں گے یعنی ایک سال میں اسے 2190ملین کی ادائیگی کی جائے گی۔اور المیہ یہ ہے کہ نئے بندوبست کے تحت لاہور سے یومیہ 2000ٹن کچرا اُٹھایا جا رہا ہے جبکہ روزانہ 3500ٹن کچرا جمع ہونے کے باعث گندگی کے پہاڑ بنتے جا رہے ہیں اور پورا شہر کچراکنڈی میں تبدیل ہو رہا ہے۔یعنی اگر پورا کچرا اُٹھانے کا بندوبست کرنا پڑے تو حکومت ترک کمپنی کو جتنی ادائیگی کر رہی تھی، اس سے دوگنا رقم خرچ کرنا پڑے گی۔ظلِ الٰہی! آپ کسی کو این آر او ہرگز نہ دیں مگر جان کی امان پائوں تو عرض کروں،کچھ دن کے لئے شہباز شریف کو پیرول پر رہا کردیں تاکہ ان کے ذریعے ترک کمپنیوں کے ساتھ معاملات طے کئے جاسکیں ورنہ لاہور اور کراچی میں فرق کرنا دشوار ہو جائے گا۔

About admin

Check Also

25+ Times People Thought Of Stupid Solutions That Actually Work

The only limit to accomplishing anything in life is your imagination. However, creativity and inventions …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *