برطانیہ کے جنوب مغربی حصے میں واقع ملک ویلز میں خبریں زیرگردش تھیں کہ حکومت مردوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کرنے جارہی ہے۔برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق ویلز میں گزشتہ کئی روز سے قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ حکومت نے گھریلو ت، ش، دد کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے بعد بالخصوص مردوں کے لیے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان خبروں کے بعد
عام طور پر یہ تاثر سامنے آیا تھا کہ حکومت گھریلو ت شدد پر قابو پانے کے لیے مردوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کردے گی۔ حیران کن طور پر افواہیں پھیلانے والوں نے مردوں کے کرفیو کی دلچسپ وجوہات بھی بیان کی تھیں۔کہا جارہا تھا کہ مردوں کے گھر سے نکلنے پر پابندی کے بعد خواتین اور بچے خود بہ خود گھر میں رہیں گے کیونکہ انہیں باہر نکلنے کے لیے کسی مرد کی
ضرورت ہوتی ہے۔اب ویلز کے پہلے وزیر ڈراک فورڈ نے اس حوالے سے وضاحتی بیان جاری کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ’مردوں کے لیے کرفیو نافذ کرنا پریشان کن ہوسکتا ہے، ایسا فیصلہ قابل غور تھا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات ہوئی‘۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کیا جائے گا، حکومت اُس کا باضابطہ اعلان کرے گی۔ وزیر نے بتایا کہ ’ہم ایسا کوئی قانون پیش نہیں
کررہے، اس طرح کی بے بنیاد اور من گھڑت خبریں جان بوجھ کر پھیلائی جارہی تھیں تاکہ عوام کو پریشان کیا جائے‘۔انہوں نے سوال کیا کہ برطانیہ میں ہر تیسرے روز کسی مرد کے ہاتھوں ایک خاتون کا ق ت ل کیوں ہوتا ہے؟۔اُن کا کہنا تھا کہ ہم بطور حکومت خواتین اور مردوں دونوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں
تاکہ وہ پرسکون اور اچھے طریقے سے زندگی گزار سکیں۔ڈراک فورڈ کا کہنا تھا کہ ’اگر گھریلو ت شدد کے حوالے سے کوئی بحران پیدا ہو تو اُس کے لیے ڈرامائی ایکشن نہیں بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں‘۔