دھڑدھڑ شیئر ہو رہا ہے، صف ماتم بچھی ہے کہ ملتان میں آم کے درخت کاٹ کر ڈی ایچ اے بن رہا ہے۔ سوشل میڈیا پہ آواز اٹھانا بہت اچھا ہے۔ مگر ملتان کے دوستو سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔یہ درخت آپ کا ورثہ ہی نہیں مستقبل بھی ہیں۔ یہ ماحولیاتی تحفظ کا ایشو بھی ہے۔ سو پچاس لوگ یہاں پہنچ کر ڈیرہ ڈال دیں
کہ درخت نہیں کاٹنے دیں گے۔ اوور مائی ڈیڈ باڈی کر دیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے، کسی کی جرات نہیں ہو گی کہ آپکو ہاتھ لگائے۔ فیس بک لائیو چلا دیجئیے گا۔ کچھ ماڑ پڑ بھی گئی تو بڑی بات نہیں۔ دوسرا ملتان شریف میں کوئی تو عقل والا ہو گا جو سویرے پہلا کام یہ کرے
کہ عدالت سے جا کر فوری سٹے لے۔ یہ کٹائی رکوائے۔ اسکے بعد اس ایشو کو نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پہ ماحولیات سے وابستہ فورمز پہ اٹھایا جائے۔ کیا ملتان میں سول سوسائیٹی کوئی وجود نہیں رکھتی؟اچھا مثال سنئیے۔ ڈی ایچ اے لاہور کے وسط میں ہے چڑڑ پنڈ۔ دنیا جہان کا زور لگا لیا،
انکی زمین نہیں لے سکے۔ نا زور زبردستی نا عدالت سے۔ جگرا پھڑو سجنو، کوئی بحریہ کوئی ڈی ایچ اے ہوا نہیں ہے۔جہاں پنگا بڑے حریف سے ہو اور معاملہ مستقبل کا ہو وہاں فقط گھر بیٹھ کر والز پہ شور نہیں مچایا کرتے، میدان میں نکلا کرتے ہیں۔ اور اگر ملتان شریف میں سو پچاس ایسے سر پھرے بھی باقی نہیں رہے،
تو یقین کیجئیے آپ کیلئیے ڈی ایچ اے ہی بہتر ہے۔ بقول میاں محمد بخش صاحب، لسے دا کی زور محمد، نس جانا یا رونا