Home / پاکستان / وزیراعظم پاکستان سے سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر تک کا سفر

وزیراعظم پاکستان سے سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر تک کا سفر

Sharing is caring!

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔نجانے کیوں ایک محاورہ کل سے بار بار ذہن میں ہلچل مچا رہا ہے۔ ”آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا“ محاورے نے میرے چودہ طبق روشن کر رکھے ہیں۔ اس محاورے کے ساتھ ہی اپنے مرشدِ اعلیٰ سید یوسف رضا گیلانی کی تصویر آنکھوں میں جگمگانے لگتی ہے۔ کہاں چیئرمین سینیٹ بننے نکلے تھے اور کہاں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بن گئے اور وہ بھی متفقہ نہیں، یوں لگتا ہے مرشد کسی عہدے کے لئے ترسے ہوئے تھے،

بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق اور کچھ نہیں ملا تو اپوزیشن لیڈر ہی بن گئے، جب سینیٹ کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو صحافیوں نے سوال کیا تھا کہ آپ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، کیا سینیٹر بننا اس بڑے عہدے کے بعد معیوب نہیں لگتا؟ تو فرمایا مرشدِ ملتان نے کہ دنیا بھر میں سینیٹ کے ایوان میں وہی لوگ جاتے ہیں جو ملک کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہ چکے ہوں۔ اس وقت سید یوسف رضا گیلانی کا ہدف سینیٹ کی چیئرمین شپ تھی، حالانکہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے والوں نے گیلانی صاحب کے بارے میں کچھ اور ہی سوچ رکھاّ تھا۔ امید تھی کہ وہ چیئرمین سے کم تر کسی عہدے پر راضی نہیں ہوں گے، مگر وہ مرشد ہی کیا جو سجی دکھا کے کبھی نہ مارے۔ انہوں نے سارے دروازے بند ہوتے دیکھ کر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننا قبول کر لیا۔ اس کے لئے اِدھر اُدھر نہیں دیکھا بس عہدے پر نظر رکھی، کیا سید یوسف رضا گیلانی نے ٹھیک کیا؟ یا ان کی ایک گریڈ تنزلی ہو گئی ہے۔سینیٹ انتخابات کی مہم چلی تو سید یوسف رضا گیلانی اس دعوے کے ساتھ سامنے آئے کہ وہ متفقہ طور پر وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، پارلیمنٹرین ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس لئے ضمیرکی آواز پر ارکانِ اسمبلی انہیں ووٹ دیں گے

اور وہ سینیٹر بن جائیں گے۔ ہوا بھی یہی وہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دے کر سینیٹر بن گئے۔ وہ پی ڈی ایم کے امیدوار تھے اور پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے انہیں سو فیصد ووٹ دیئے، جن میں مسلم لیگ (ن) کے تمام ووٹ بھی شامل تھے، لیکن اب اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے سید یوسف رضا گیلانی نے جس طرح پی ڈی ایم سے بالا بالا اور خاموشی کے ساتھ چیئرمین سینیٹ کو اپوزیشن لیڈر کے لئے اپنی اکثریت ثابت کی ہے، اس سے ان کے سیاسی قد کاٹھ میں کمی آئی ہے، اضافہ نہیں ہوا، سب سے پہلے تو انہیں چاہیے تھا کہ اس عہدے کے لئے انکار کر دیتے، کیونکہ یہ عہدہ متنازعہ ہو چکا تھا اور پی ڈی ایم کے فیصلے کی نفی تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن) سے ہو گا۔ پھر اخلاقی طور پر بھی یہ مرشدِ ملتان کا فرض تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اعتماد میں لیتے، جس نے انہیں سینیٹر بنوایا تھا۔ احسن اقبال نے شاید اسی لئے کہا ہے کہ گیلانی اگر اپوزیشن لیڈر بننا چاہتے تھے تو نوازشریف سے بات کرتے وہ اپنا امیدوار دستبردار کر لیتے، مگر اس کی بجائے ایک خفیہ راستہ اختیار کیا گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے قائد حزب اختلاف تو بن گئے مگر انہیں اس کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ ان پر یہ الزام لگ گیا ہے کہ انہوں نے پی ڈی ایم کی پیٹھ پر وار کیا ہے ۔

اپنے محسنوں سے بے وفائی کی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان پر بھی سلیکٹڈ کی چھاپ لگ گئی ہے۔ اب پیپلزپارٹی یہ وضاحتیں دیتی رہے کہ اسے جن چار آزاد ارکانِ اسمبلی کی حمایت ملی، وہ سرکار کے نہیں، اپوزیشن کے ساتھ تھے۔ سینیٹر منتخب ہونے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی نے مسلم لیگ (ن) کا دل کھول کر شکریہ ادا کیا تھا، نوازشریف،شہبازشریف اور مریم نواز کا نام لے کر اظہار تشکر کرنے والے گیلانی صاحب واقعی ایک بڑے قد کاٹھ کے رہنما نظر آتے تھے، مگر اپوزیشن لیڈر بننے کے لئے انہوں نے جو راستہ اختیارکیا وہ انہیں بہت چھوٹا ثابت کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری ایک بڑی گیم کا ڈول ڈال چکے ہیں۔ وہ مستقبل کے لئے پیپلزپارٹی کی راہیں ہموار کرنے کے مشن پر ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کیا ایک کٹھ پتلی ہیں کہ ان کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ اس وقت جب گیلانی صاحب وزیراعظم تھے، انہوں نے پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کی وفاداری میں سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا اور نااہل ہو گئے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ اس وقت انہوں نے پارٹی سے وفاداری نبھائی، لیکن اب جو کیاہے، اسے کس زمرے میں شمار کیا جائے گا؟ کیا یہ احسان فراموشی نہیں کہ جس پی ڈی ایم نے انہیں سینیٹر بنوایا، وہ اسی سے بے وفائی کر گئے۔ انہیں اس معاملے میں آصف علی زرداری کو انکار نہیں کر دینا چاہیے تھا کہ ان کی جگہ کسی

اور کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا جائے، تاکہ وہ اس الزام سے بچ جائیں کہ انہوں نے ایک معمولی سے عہدے کے لئے اپنے محسنوں کو بھلا دیا، مگر نہیں صاحب ایسی باتوں کے لئے بھی جرأتِ رندانہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے مرشد ملتان اس معاملے میں تہی داماں ثابت ہوئے ہیں۔ ویسے تو ہمیشہ ہی ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بکس میں رہتے ہیں، لیکن اس بار یہ اپوزیشن لیڈر کی پخ لگا کر انہوں نے بالکل ہی خود کو اس حوالے سے نمایاں کر دیا ہے۔ اب ہوگا کیا، پی ڈی ایم سینیٹ میں اپنا پارلیمانی لیڈر نامزد کر دے گی۔ اس کی آواز گیلانی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوگی کیونکہ وہ صحیح معنوں میں اپوزیشن کا نمائندہ ہوگا، جس طرح چیئرمین شپ کے لئے سید یوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار نامزد ہوئے تھے، اسی طرح انہیں اپوزیشن لیڈر بننے کے لئے بھی پی ڈی ایم میں لابنگ کرنی چاہیے تھی، مگر صاف لگتا ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے گیم پلان کا مہرہ بن گئے اور اپنی ساکھ کو داغدار کر لیا۔ ایک زمانے میں گیلانی صاحب کا یہ تکیہ کلام رہا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔

آج یہ محاورہ مرشدِ ملتان پر کس قدر صادق آ رہا ہے، مسلم لیگ(ن) پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ اپوزیشن لیڈر ہمارا ہوگا اور مریم نواز کے رابطے بھی جاری تھے۔ کئی جماعتوں نے انہیں یقین بھی دلا دیا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کے لئے مسلم لیگی امیدوار کی حمایت کریں گی۔ ایسے میں سید یوسف رضا گیلانی کا خاموشی سے صادق سنجرانی کو اپنی اکثریت دکھا کر اپوزیشن لیڈر بننا کس زمرے میں آتا ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم لیگ (ن) ان کا سینیٹ انتخاب میں ساتھ نہ دیتی تو ان کا سینیٹر بننا تو درکنار انہیں کاغذات جمع کرانے کی بھی ہمت نہ ہوتی، پیپلزپارٹی چاہے جس کو بھی اپوزیشن لیڈر بنا دیتی، مگر سید یوسف رضا گیلانی کو یہ پیشکش اس لئے قبول نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ ذاتی طور پر مسلم لیگ (ن) کے احسان تلے دبے ہوئے تھے، اب یہ فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ سید یوسف رضا گیلانی نے ایک معمولی عہدے کے لئے اپنی ساکھ کو داؤ پر کیوں لگایا، کیا اس لئے کہ وہ اس بار بھی ضمیر کی آواز پر توجہ دینے کی بجائے آصف علی زرداری کے حکم پر قربان ہو گئے؟

About admin

Check Also

25+ Times People Thought Of Stupid Solutions That Actually Work

The only limit to accomplishing anything in life is your imagination. However, creativity and inventions …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *