لاہور (ویب ڈیسک) سیاست میں آصفہ بھٹو کی وائلڈ کارڈ انٹری نے پیپلز پارٹی میں ایک نئی جان پھونک دی ہے۔ملتان کے جلسہ میں سب سے بڑی دلچسپی یہ تھی کہ وہ کیسا خطاب کرتی ہیں۔آصفہ نے اپنی والدہ جیسا لباس پہن کر محترمہ بے نظیر کی یاد تازہ کر دی۔نامور کالم نگار ایثار رانا اپنے ایک خصوصی تبصرے میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ان کے انداز میں بھی بی بی کا عکس نظر آیا اکثر ناقدین یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ خطاب کیسا کرتی ہیں تاہم ان کی اردو بلاول بھٹو سے بہتر لگی مذکر مؤنث کا بھی غلط استعمال کم نظر آیا۔
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جب حکمرانوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ہی اولادوں نے حکمران بننا ہے تو انہیں عوام کو مکمل سحر زدہ کر دینے کے لئے اردو سکھانے میں رکاوٹ کیوں درپیش ہوتی ہے۔پی ڈی ایم کا یہ جلسہ کیونکہ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے حوالے سے تھا اس لئے جلسہ میں پیپلز پارٹی کا رنگ سب سے زیادہ تھا۔تاہم مریم نواز نے حسب معمول سلیکٹڈ انداز میں عمران خان پر بھر پور حملے کئے۔اگر ان کی یہ بات مان لی جائے کہ حکومت کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟۔کیا عمران حکومت کو ختم کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے پاس ملک کو چلانے کا کوئی منصوبہ ہے؟۔اس حکومت کو ختم کرنے سے عوام کوکیا ملے گا؟اور سب سے اہم سوال اگر سیاستدان خود اپنے ہاتھوں سے منتخب حکومتوں کو ختم کر دینے پر تلے ہوں تو میاں نواز شریف کسی وزیر اعظم کی مدت پوری نہ ہونے کا الزام اسٹیبلشمنٹ کو کیوں دیتے ہیں؟جلسے میں ایک بہت حساس الزام بھی لگایا گیا کہ حکمران اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے اجتماع میں ایسی بات کا مطلب کہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے بحث کا آغاز کر دینا تو نہیں۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ لاہور کے لئے بہت محنت ہو رہی ہے جس کے بعد اسلام آباد روانگی ہو گی۔یعنی انہوں نے اسلام آباد پڑاؤ کا عندیہ دے دیا ہے۔پھر وہی سوال کہ جو گناہ عمران خان نے ماضی میں کیا مولانا اس کا اعادہ کرکے قوم کی کیا خدمت کرنا چاہتے ہیں۔یا یہ سمجھا جائے کہ امریکہ،چین کی لڑائی ہمیشہ پاکستانی میدانوں اور پاکستانی سیاستدانوں کے ذریعہ کھیلی جاتی رہے گی عوام مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔